• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اللہ جانے وہ کون لوگ ہیں جنہیں اس ملک میں بدعنوان اور دو نمبر لوگوں کی علاوہ کوئی نظر ہی نہیں آتا، حالانکہ یہاں چپے چپے پر لوگوں نے خود ساختہ پارسائی کی دکانیں سجائی ہوئی ہیں۔ آپ بھلے ان کی پارسائی کے گاہک نہ ہوں مگر وہ آپ کو اپنا سودا بیچ کر ہی دم لیں گے۔اپنی پارسائی کی جتنی پروجیکشن ہمار ے ہاں کی جاتی ہے ،شائد ہی روئے زمین پر کہیں اور کی جاتی ہو۔کاش کہ نوبل انعام والے خود ساختہ راست بازی کی بھی ایک کیٹیگری بنا دیں ،ہم پاکستانیوں کی چاندی ہو جائے گی ،ہر سال اس کیٹیگری کا نوبل انعام سٹاک ہوم سے سیدھا ہماری جھولی میں آن گرے گا ۔
آج کل پارسا ئی کا دعویٰ اس قدر ”رُل“ گیا ہے کہ ہر وہ شخص جو وقت پر دفتر آتا ہے صدق دل سے سمجھتا ہے کہ اسے پرائڈ آف پرفارمنس ملنا چاہئے اورہر ڈی پی او جو کسی جیب کترے کو پولیس مقابلے میں مار دیتا ہے تمغہ شجاعت کا طلب گاربن بیٹھتا ہے ۔تاہم پارسائی کی سب سے دلچسپ قسم ”مجبور پارسائی “ ہے ،اس میں وہ مرد مومن آتے ہیں جنہیں تمام عمر کسی نے بدی کی جھوٹے منہ بھی پیشکش نہیں کی ہوتی مگر وہ اس زعم میں مبتلا رہتے ہیں کہ وہ بکاؤ مال نہیں جبکہ در حقیقت بازار میں ان کے مال کا خریدار ہی کوئی نہیں ہوتا۔یہ بیچارے اپنا ڈھول خود ہی پیٹ پیٹ کر لوگوں کو یہ باور کرواتے رہتے ہیں کہ ان کے دامن پر کسی قسم کا کوئی داغ نہیں۔یہ لوگ اخباروں میں اربوں روپوں کی کرپشن کے قصے پڑھتے ہیں تو مجلس میں بیٹھ کر کانوں کو ہاتھ لگاتے ہیں ،ملک میں خونی انقلاب کی دہائی دیتے ہیں اور ساتھ ہی اپنا مقدمہ پیش کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ انہوں نے زندگی بھر حق حلال کی کھائی ہے اوریہ بات کہتے ہوئے ان کی آواز رندھ جاتی ہے ۔اصل میں یہ اس بات کا ماتم ہوتا ہے کہ کاش اربوں کی اس گنگا میں خدا کا کوئی نیک بندہ انہیں بھی دو چار کروڑ کی ڈبکی لگوا دیتا ۔
ان مجبور پارساؤں کی ایک ذیلی شاخ بھی ہے ،ان کی پارسائی کا دعویٰ کچھ اس طرح ہے کہ ہم نے ہمیشہ حق سچ کی آواز بلند کی ہے ،حکمرانوں کے لتے لئے ہیں ،دنیاوی مال و زر اور عہدوں کو ہم اپنی ٹھوکر پر رکھتے ہیں ،ہمارا تبصرہ بے لاگ اور ہر قسم کے تعصب سے بالا ہوتا ہے ،ہم سونے میں تولنے کے لائق ہیں ،وغیرہ وغیرہ۔ان کی آخری بات درست ہے کہ وہ تولے جانے کے لائق ہیں ،مگر سونے میں نہیں”سوتے “میں ۔ان بیچاروں کو یہ ملال ہی کھائے جاتا ہے کہ کوئی حکمران انہیں منہ کیوں نہیں لگاتا ،اپنی بغل میں بٹھا کر مشورے کیوں نہیں لیتا ،ان کی تالیف قلب کے لئے ون ٹو ون میٹنگ کیوں نہیں کرتا ۔ان کی تمام تر پارسائی اس وقت تک کے لئے ہوتی ہے جب تک کوئی ان کا مول نہیں لگاتا،مگر افسوس ساری عمر اسی دشت کی سیاحی میں کٹ جاتی ہے ،مول نہیں لگتااو ر یہ بیچارے خود ساختہ پارسائی کا کفن اوڑھ کر قبر میں جا پہنچتے ہیں ۔یہ وہ لوگ ہیں جو ہر آمر کے آنے پر اپنے ”بے لاگ“ تجزیوں میں اسے خوش آمدید کہتے ہیں کہ شائد وہی انہیں دانہ ڈال دے مگر جب اس سے بھی لفٹ نہیں ملتی توآمریت کے خلاف دو چار مضمو ن اس وقت لکھ ڈالتے ہیں جب ہر راہ چلتا اسے ٹھاپیں لگا رہا ہوتا ہے ،اور پھر نئے جمہوری دور میں اپنے ان مضامین کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہم نے آمریت کے خلاف ”جدو جہد“ کی !اصل میں یہ حسد کے مار ے ہوئے لوگ ہیں ،ان اوقات اس سے زیادہ کی نہیں ہوتی کہ ان کے کہنے پر کسی پولیس کانسٹیبل کا تبادلہ کر دیا جائے یا ان کی دستار اتار کر اس میں دو چار سو روپے ڈال دئیے جائیں ،جس دن ان کا مضمون چھپتا ہے اس کے پندرہ منٹ بعد اس میں پکوڑے بک رہے ہوتے ہیں،انہیں یہ سوچ کرہی غش پڑ جاتا ہے کہ کوئی شخص بلا خوف و خطر آمریت کے خلاف اس دور میں ڈٹ کر کیسے لکھ سکتا ہے جب آمر کا غیظ و غضب اپنے عروج پر ہو ۔اس دور میں یہ خود ساختہ راست باز اپنے بلوں میں جا چھپتے ہیں یا آمرکی خوشنودی کے نت نئے طریقے ڈھونڈتے ہیں اور جونہی اس کا دور حکومت زوال پذیر ہوتا ہے یہ کمر کس کے میدان میں اترتے ہیں اور اپنی پارسائی کا ڈنکا بجاتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہم بکنے والوں اور جھکنے والوں میں سے نہیں اور لڑاکا عورتوں کی طرح الٹا ان لوگوں کو کوسنے دینے شروع کر دیتے ہیں جنہوں نے دہشت زدہ ہوئے بغیر آمر کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کی ہوتی ہے ۔
خود ساختہ راست بازوں کا طریقہ واردات نہایت دلچسپ ہے ۔آج کل چونکہ مارکیٹنگ کا دور ہے اس لئے ہمارے یہ دوست اپنی پارسائی کی ایسی مارکیٹنگ کرتے ہیں کہ بندہ عش عش کر اٹھتا ہے ۔اس طریقہ کار کو اپنانے میں انہیں کسی قسم کی جھجھک یا شرم محسوس نہیں ہوتی ،جہاں دو چار بندے مل جائیں وہیں اپنی پارسائی کے قصے سنانے شروع کر دیتے ہیں۔تھوڑے بہت فرق کے ساتھ ان تمام قصوں کا انداز بیان لگ بھگ ایک جیسا ہوتا ہے ،مثلاً ”جب میں فلاں ادارے کا ڈائریکٹر تھا تو میں نے وہاں عوام کی داد رسی کے لئے ایک مثالی نظام قائم کیا،لوگ نوشیرواں کی مثالیں دینے لگے ،عدل جہانگیری کو میں نے مات دے دی، میرے تقوی کا یہ عالم تھاکہ لوگ میرا نام لے کر سچائی کی قسمیں کھاتے تھے ،افسران بالا اور سیاست دانوں کے غیرقانونی احکامات کی میں نے کبھی پرواہ نہیں کی ،میری خوش اخلاقی ضرب المثل بن چکی تھی ،بعض لوگوں نے تو دبے الفاظ میں یہ کہنا شروع کر دیا تھا کہ میں انسان کے روپ میں در حقیقت کوئی فرشتہ ہوں، علاقے میں لوگوں نے مجھے پیر مان کر میرا عرس منانا شروع کر دیا تھا، میری پارسائی کا یہ عالم تھا کہ اگر میں کچھ عرصہ مزید وہاں تعینات رہتا تو لوگوں نے مجھے بھگوان کا اوتار مان لینا تھا۔“
بعض لوگو ں کو اس تکنیک کے استعمال کی سوجھ بوجھ نہیں ہوتی او ر وہ اپنا مذاق بنوا لیتے ہیں ،ایسے نا عاقبت اندیشوں کے لئے پارسا اساتذہ نے کچھ مفید مشورے دئیے ہیں جن میں سب پیارا مشور ہ یہ ہے کہ یہ تمام باتیں اپنے منہ سے اگلنے کی بجائے اوروں سے کہلوائی جائیں اور اگر کوئی دوسرا یہ باتیں کہنے کو تیار نہ ہو تو پھر خود اس انداز میں کی جائیں کہ لگے آپ خود نہیں کہتے ،لوگ ایسا سمجھتے ہیں۔ اس ضمن میں روحانیت کا سہارا لینا بھی خاصا مفید رہتا ہے، اشاروں کنائیوں میں لوگوں کو بتاتے رہیں کہ آپ تصوف کی جانب مائل ہو چکے ہیں اور اس راہ پر صرف خدا کے برگزیدہ بندے ہی چل سکتے ہیں ،اور آپ چونکہ اس راہ کے مسافر ہیں ، پس ثابت ہوا کہ آپ پارسا ہیں ،اللہ اللہ خیر سلا۔اب چاہے ساری عمر آپ نے پرائز پوسٹنگ کے حصول کے لئے ہی کیوں نہ وقف کر دی ہواور اس مقصد کے لئے پیروں فقیروں کے آستانوں پر ماتھے ہی کیوں نہ رگڑے ہوں ، اپنے آپ کو ڈنکے کی چوٹ پر پارسا کہیں، کوئی نہیں پوچھے گا ۔یہ ایسے ہی ہے جیسے کوئی شخص آخری عمر میں خود کو کلین چٹ جاری کردے ،حالانکہ یہ کام قبر میں منکر نکیر کے کرنے کا ہے۔سچی بات یہ ہے کہ آج کل کے زمانے میں اپنی تعریف کرنا ایسی معیوب بات بھی نہیں کیونکہ زمانہ بے حد سفاک جج ہے ،یہ کسی شخص کو دیانت دار اور اجلا ماننے کو تیار نہیں ،جب تک آپ اپنے بارے میں لوگوں کو سچ نہیں بتائیں گے لوگ آپ کو اپنی طرح کرپٹ ہی سمجھیں گے۔ لیکن افسوس کہ ہم سچ بتانے کی بجائے خودستائشی کا شکار ہو جاتے ہیں اور پھر خود ساختہ پارسا بن کر ریٹائر ہو جاتے ہیں۔ یہ قوم پہلے ہی نفسیاتی مریضوں سے بھری پڑی ہے سوپلیز مجھے ایسے پارساؤں سے بچائیں!
تازہ ترین