اس حقیقت پر کسی کی بھی دورائے نہیں ہوسکتی ہےکہ دُنیا بھر میں بڑی ملٹی نیشنل کمپنیاں، مالیاتی ادارے، بنکس، صنعتی اور تجارتی اداروں کے مالکان کے علاوہ صاحب ثروت طبقہ بھاری معاوضوں کی وجہ سے جان ومال کے تحفظ کے لیے نجی سیکیورٹی کمپنیزکی خدمات حاصل کرتے ہیں۔ اس کے برعکس اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ایس او پیز سے عاری بیشترنجی سیکیورٹی کمپنیز اب خود سیکیورٹی رسک بن گئی ہیں۔
جس کی مثال گزشتہ دنوں میھٹادرتھانےکی حدود آئی آئی چندریگر روڈ پر کروڑوں روپے کی چوری کی واردات ہے، جس میں نجی سیکیورٹی کمپنی کا شاطرڈرائیور دن دھاڑے دلیرانہ انداز میں کیش وین سے 20کڑوڑ سے زائد نقد رقم لے کر بآسانی فرارہوگیا اور تاحال قانون کے شکنجے سے باہر ہے۔ خطیر رقم کی چوری کی اس واردات نےنہ صرف پولس کی کارکردگی کی قلعی کھول دی ہے، بلکہ کئی سوالات کو بھی جنم دیا ہے،جوکسی المیے سےکم نہیں ہے۔
ریجنل منیجر آپریشن شیخ شعیب کی مدعیت میں مقدمہ درج کر کے پولیس تفتیش کررہی ہے۔ ملزم اور اس کے ساتھیوں کی مجرمانہ ذہانت کا اندازہ اس بات کی بھی لگایا جاسکتا ہے کہ وہ رقم کے علاوہ کمپنی کا اسلحہ، 2 پستول، ایک رپیٹر اور گاڑی میں لگا کیمرہ اور ڈی وی آر بھی ساتھ لے گئے۔ نجی سیکیورٹی کمپنی کی کیش وین طارق روڈ پر دفتر سے بینک کی رقم ڈلیور کرنے کے لیے روانہ ہوئی تھی،رقم اسٹیٹ بینک آف پاکستان میں جمع کرائی جانی تھی۔
آئی آئی چندریگر روڈ پر سیکیورٹی گارڈ محمد سیلم نجی بینک سے رسید لینے گیا ، واپس آیا تو کیش وین موجود نہ تھی، گاڑی کی غیر موجودگی پر سلیم نے ڈرائیور حسین شاہ کو کال کی تو اس نے کہا تھوڑی دیر میں آرہا ہوں، کچھ دیر انتظار کرنے کے بعد سلیم نے اپنے دفتر کو اطلاع دی ، دفتر سے کال کی گئی تو حسین شاہ کا نمبر بند تھا، گاڑی کی ٹریکنگ لوکیشن معلوم کی گئی، گاڑی شکر گودام مسکین گلی اولڈ کوئنز روڈ پر پائی گئی، گاڑی کی ڈرائیونگ سائڈ والا دروازہ ان لاک تھا، گاڑی کی تلاشی لی تو کیش، اسلحہ اور کیمرہ اور ڈی وی آر سب غائب تھا، مقدمے میں ڈرائیور اور اس کے نامعلوم ساتھیوں کو بھی شامل کیا گیا ہے۔
پولیس نے حسبِ روایت دعویٰ کیا ہے کہ کیش وین کے ڈرائیور حسین شاہ کو جلد گرفتار کر لیں گے۔ تفتیشی پولیس کا کہنا ہے کہ جب مفرور ملزم حسین شاہ کے والد سے اس کےبیٹے کے بارے میں پوچھ گچھ کی گئی تو ان کہنا تھا کہ ہمارا حسین شاہ سے کوئی تعلق نہیں ، ہم نے6 ماہ قبل حسین شاہ کو گھر سے نکال دیا تھا۔ مفرور ملزم ڈرائیور کا آبائی تعلق خیبرپختونخواہ سے ہے۔ تفتیشی حکام نے، ملزم کے موبائل کا ڈیٹا حاصل کرلیا ہے۔ پولیس نے اپنی روایتی تفتیش میں سیکیورٹی کمپنی کے دیگر گارڈز کو حراست میں لے کر ان سے بھی پوچھ گچھ کی شروع کردی ہے۔
سیکیورٹی کمپنی کے سپروائزرز کے بیانات بھی لیے گئے ہیں، سیکیورٹی کمپنی کی کیش وین میں ملزم ڈرائیور کے ساتھ محضدوافراد سوار تھے، پولیس کوشبہ ہے کہ ملزم نے باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت واردات کی، مفرور ملزم ڈرائیور ایک سال سے زائد عرصے سےسیکیورٹی کمپنی میں ملازم تھا، یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہےکہ خطیر رقم کی منتقلی کے لیے سیکیورٹی کمپنی نے توایس اوپیز کا خیال کیوں نہیں رکھا اور اتنی بڑی رقم کی منتقلی کا طریقہ کار نامناسب اور افرادی قوت بھی 2افراد پر تھی، جو شہر کے موجودہ حالات کے پیش نظر کسی طرح دُرست نہیں تھا۔
نجی سیکیورٹی کمپنی میں ملازمین کی بھرتی کے طریقہ کار اور انتہائی ناقص کارکردگی کےحوالے سے ہم متعدد بار اس کی نشاندھی کر چکے ہیں۔ یہاں یہ امربھی قابل ذکر ہےکہ شاطر ملزم ڈرائیور نے کمپنی میں بھرتی کے لیے پولیس کا جعلی تصدیق نامہ جمع کرایا تھا۔ اور کمپنی نےبلاتحقیق ۔جعلی تصدیق نامے پر ہی اسے بھرتی کیا تھا۔ یاد رہے کہ سابق کراچی پولیس چیف غلام نبی میمن نے محکمہ پولیس کے علاوہ نجی سیکیورٹی کمپنیوں کے گارڈز کے وارداتوں میں ملوث ہونے کا نوٹس لے۔
کراچی کی نجی سیکیورٹی کمپنیوں کے گارڈز کی ویری فکیشن کے لیے آل پاکستان سیکیورٹی ایجنسیز ایسوسی ایشن کے دفتر میں خصوصی سیل قائم کیا تھا، جسےکمپیوٹر ائزسسٹم نادرا اور سی آر او سے منسلک کیا گیا تھا،جس کے بعد سیکیوریٹی گارڈز کو بھرتی سےقبل تصدیقی سرٹیفیکیٹ حاصل کرنا لازمی قرار دیاگیا تھا اور بلاشبہ غلام نبی میمن کا یہ مثبت اور قابل قدر قدم تھا،جسے شاید نظر انداز کیا گیا ہو، جس کےباعث شاطر ملزم قانون کی گرفت سے تاحال آزاد ہے۔
دوسری جا نب تفتیشی پولیس نے واردات میں اہم پیشرفت کا دعویٰ کیا ہے کہ 2سہولت کار وں کوگرفتار کرلیا ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ 20 کروڑ سے زائد رقم کی منتقلی کے لیے استعمال ہونے والی ہائی روف بھی تحویل میں لےلی ہے۔ تفتیشی پولیس کاکہناہےکہ واردات کی منصوبہ بندی کئی ماہ قبل کی گئی تھی۔ چوری شدہ رقم ہائی روف کے ذریعے منتقل کی گئی، تفتیشی حکام کا یہ دعویٰ بھی ہے کہ واردات کے بعد ملزم حسین شاہ ہائی روف میں رقم لے کر گلستان جوہر پہنچا، تفتیشی حکام مطابق گرفتار سہولت کار سگے بھائی اور ہائی روف کے مالک ہیں۔واردات میں استعمال ہونے والی ہائی روف گرفتار سہولت کاروں نے اپنے بہنوئی ذوالفقار کو دی تھی۔ذوالفقار نے واردات کے لیے ہائی روف واردات کے مرکزی ملزم حسین شاہ کودی تھی، تفتیشی ذرائع کا دعویٰ ہے کہ مرکزی ملزم حسین شاہ اور ساتھی ذوالفقار کراچی سے باہر فرار ہوگئے ہیں، مفرور ملزم ذوالفقار نے پِکنک پر جانے کے بہانے ہائی روف حاصل کی تھی۔
بعد ازاں کیش وین سے 9اگست کوہونےوالی واردات کی گتھی جلد سلجھانے کےلیے دو ڈی ایس پیز کی سربراہی میں 6رکنی خصوصی ٹیم تشکیل دے دی گئی ہے۔ ٹیم میں شعبہ آپریشن اور انوسٹی گیشن کے افسران شامل ہیں۔ اس خصوصی ٹیم میں ڈی ایس پی درخشاں، ایس ایچ اور ایس آئی او میٹھادر بھی شامل ہیں۔ مقدمے کا تفتیشی افسر، ڈی ایس پی انوسٹی گیشن اور آئی ٹی ڈیپارٹمنٹ سےبھی ایک فرد ٹیم کا حصہ ہوگا۔ تادم تحریر واردات کا مرکزی اورمفرور ملزم حسین شاہ پولیس کی پہنچ سے کوسوں دور تھا۔ شہری حلقوں کاکہناہےکہ اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا تشکیل دی گئی پولیس کی خصوصی ٹیم مفرور شاطر دماغ ملزم کو پکڑ سکے گی یا وقت گزرنے کے ساتھ کے ساتھ سب کچھ مغفی ہوجائے گا۔
دوسری جانب مختلف علاقوں میں یکے بعد دیگرے ’’تیزاب گردی‘‘ کے دو واقعات، جس میں شوہر نے بیوی اور بیوی نےشوہر پر تیزاب پھینک کر زخمی کردیا، جو شہریوں کے لیےنہ صرف تشویش کا باعث بنے ہیں، بلکہ اس نئی لہر نے انھیں خوفزدہ بھی کردیا ہے۔ گزشتہ دنوں سعید آباد تھانے کی حدود سیکٹر 9C میں ٹِک ٹاک ویڈیوز بنانے پر 21 سالہ لڑکی رمشاء پر اس کے سابقہ شوہر سید ذیشان، تیزاب پھینک کرفرار ہوگیا۔
تیزاب سے لڑکی کا 40 فیصد جسم جھلس گیا ۔ ملزم کی گرفتاری کے لیے ٹیم تشکیل دی گئی،جس نے 24 گھنٹوں کے دوران ٹیکنیکل ذرائع کا استعمال کرتے ہوئے درجن سے زائد چھاپےمار کر ملزم سید ذیشان کو گرفتار کر لیا،جب کہ نیو کراچی میں شبانہ نامی خاتون نےسابق شوہر عثمان پر تیزاب پھینک کر اسے زخمی کردیا۔ شبانہ کا کہنا تھا کہ عثمان دوبارہ شادی کرنے کے لیے دباؤ ڈال رہا تھا۔ تیزاب سے شبانہ بھی معمولی زخمی ہوگئی۔ بعدازاں دونوں نے ایک دوسرے پر الزام لگایا۔ زخمی عثمان کے بیان کے بعد پولیس نے ملزمہ کوگرفتار کرلیا۔