• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہارون مرزا۔۔۔ راچڈیل
پاکستان میں برسر اقتدار جماعت کو عنان حکومت سنبھالے تین سال کا عرصہ گزر چکا ہے حکومت نے اس دوران نہ صرف ریکارڈ غیر ملکی قرضے حاصل کیے بلکہ آئی ایف ایم کی سخت شرائط کو بھی تسلیم کیا ،تین سال کے دوران مسلسل پاکستانی روپے کی قیمت میں کمی اور اس کے مقابلے میں ڈالر کی اونچی اڑان نے پاکستان میں مہنگائی کا ایسا طوفان برپا کیا ہے کہ حالات کا مقابلہ کرنا ہر طبقے کے بس سے باہر ہوتا جا رہا ہے، بدترین مہنگائی اور روپے کی مسلسل گراوٹ کے باوجود حکمران غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافے کا دعویٰ کرتے نظر آتے ہیں ،بدقسمتی سے نوٹ دنیا کی وہ واحد کرنسی ہے جس میں استحکام نہیں ، روپے کی قیمت میں عدم استحکام کی وجہ سے غیر ملکی قرضوں کی واپسی کیلئے رقم کے حجم میں بھی روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے ،کرنسی کی گراوٹ سے سفید پوش اور غریب طبقہ پس کر رہ گیا ہے ،لوگوں میں قوت خرید ختم ہوتی جا رہی ہے، فاریکس ایسوسی ایشن آف پاکستان کی رپورٹ کے مطابق انٹر بینک میں گذشتہ ایک ہفتے کے دوران روپے کے مقابلے ڈالر کی قدر میں1.20روپے کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا جس سے ڈالر کی قیمت خرید165.45روپے سے بڑھ کر166روپے اور قیمت فروخت164.55روپے سے بڑھ کر166.40روپے ہو گئی اسی طرح مقامی اوپن کرنسی مارکیٹ میں ایک ہفتے کے دوران ڈالر کی قدر میں1.60روپے کا اضافہ ہوا جس سے ڈالر کی قیمت خرید 164.40روپے سے بڑھ کر166روپے اور قیمت فروخت164.80روپے سے بڑھ کر166.40روپے پر جا پہنچی ،فاریکس رپورٹ کے مطابق زیر تبصرہ مدت میں یورو کی قدر میں2.70روپے کا نمایاں اضافہ ہوا جس سے یورو کی قیمت خرید191.80روپے سے بڑھ کر194.50روپے اور قیمت فروخت193.30روپے سے بڑھ کر196روپے پر جا پہنچی جب کہ3روپے کے اضافے سے برطانوی پونڈ کی قیمت خرید 223.50روپے سے بڑھ کر226.80روپے اور قیمت فروخت225.50روپے سے بڑھ کر228.50روپے ہو گئی۔ پاکستان کی دن بدن زوال پذیر کرنسی کے بارے حکومت کا موقف ہے کہ سابقہ ادوار میں پاکستان پر بے تحاشا قرضوں کے بوجھ اور دستیاب وسائل کی کمی کے باعث انہیں آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑا جس کی وجہ سے سخت شرائط بھی تسلیم کیں کورونا بحران اور دیگر سنگین مسائل کی وجہ سے کرنسی میں استحکام نہیں رہا مگر حکومت مستقبل میں کرنسی میں استحکام لانے کیلئے پرعزم ہے دوسری طرف ڈالرکے مقابلے میں پاکستانی روپے کی گرتی ہوئی قدر سے کسے فائدہ اور کسے نقصان ہوتا ہے یہ بھی ایک اہم اور غور طلب معاملہ ہے پاکستانی روپے کی قدر میں کمی کا براہِ راست اثر ان اشیاء کی قیمتوں پر ہوتا ہے جو بیرونِ ملک سے درآمد کی جاتی ہیں جیسے کہ کمپیوٹرز، گاڑیاں اور موبائل فونز وغیرہ اور ان تمام اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ ہو جاتا ہے اس کے علاوہ پاکستان پر بین الاقوامی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف اور عالمی بنک کے قرضوں کا حجم بھی بڑھ جاتا ہے مثلا اگر ایک ڈالر 100 روپے کے برابر ہو اور ایک ارب ڈالر کا قرضہ ہو تو اس حساب سے 100 ارب روپے کا قرضہ ہوگا لیکن اگر ڈالر 110 کا ہوجائے تو قرضہ بھی اسی حساب سے بڑھ جائے گا،دوسری جانب روپے کی قدر میں کمی سے ملکی برآمدات کرنے والوں کو بظاہر فائدہ ہوتا ہے چونکہ برآمد کرنے والے کو اپنی چیز کی زیادہ قیمت مل رہی ہوتی ہے اس لیے وہ اپنی پیداواری لاگت میں رہتے ہوئے اشیاء کی قیمت میں کمی کر سکتا ہے اس طرح عالمی منڈی میں برآمدات بڑھ جاتی ہیں اوراس سے جاری کھاتے یا کرنٹ اکاؤنٹ کا خسارہ بھی کم ہوجاتا ہے موجودہ دور حکومت میں پاکستان میں برآمدات مسلسل گر تی چلی جا رہی ہیں جب کہ درآمدات میں تیزی دیکھی گئی ہے، زر مبادلہ کے ذخائر میں مسلسل کمی بھی کرنسی کی گراوٹ کا ایک اہم پہلو تصور کیا جاتا ہے گزشتہ چند برسوں کے دوران پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی دیکھی جا رہی ہے مگر موجودہ حکومت دعویدار ہے کہ زرمبادلہ کے ذخائر میں اب اضافہ ہونا شروع ہو گیا ہے اور انتہائی حوصلہ افزائی نتائج سامنے آ ئیں گے ،ڈالر کی قیمت میں اضافہ کی وجہ سے ملک سے سرمایہ چلا جاتا ہے اور نیا سرمایہ دار یہاں آنا نہیں چاہتے اور یہ ہر طرح سے نقصان دہ ثابت ہوتا ہے کسی بھی ملک کی کرنسی کی مسلسل گراوٹ کے باعث سرمایہ دار کسی صورت بھی اپنا سرمایہ خرچ نہیں کرتا کیونکہ کرنسی میں استحکام نہ ہونے کی صورت میں اسے اپنی جمع پونجی سے ہاتھ دھونا پڑتے ہیں موجود ہ حالات میں ضرورت اس امر کی ہے کہ تارکین وطن اور حکومت پاکستان مل کر پاکستانی روپے کو زیادہ سے زیادہ مستحکم بنانے کیلئے جدوجہد کریں تاکہ پاکستان پر قرضوں کے بوجھ میں کمی آئے اور روپیہ مستحکم ہو تاکہ معیشت بھی پروان چڑھ سکے ۔
تازہ ترین