میںدورہ امریکہ کے دوران واشنگٹن میں ہوں جہاں میری بیرون ملک مقیم پاکستانی کمیونٹی سمیت مختلف مقامی شخصیات سے ملاقاتیں جاری ہیں، مجھے یہاں مس اینڈ مسز پاکستانی تقریب میں بھی جانے کا موقع ملا اور میں نے ایک اردو مشاعرے میں بھی شرکت کی۔امریکہ میں قیام پذیر پاکستانی کمیونٹی کا شمار خوشحال ترین طبقات میں کیا جاتا ہے جو ملکی ترقی و خوشحالی میں اپنا بھرپور کردار ادا کررہی ہے، ایک محتاط اندازے کے مطابق امریکہ میں لگ بھگ ساڑھے پانچ لاکھ سے زائد پاکستانی امریکی شہری بستے ہیں جن کا تعلق پاک سرزمین سے ہے،دُہری شہریت کے حامل یہ شہری پاکستان سے بھی بے انتہا محبت کرتے ہیں اور ہر مشکل کی گھڑی میں پاکستان کی دل کھول کر مدد کرتے ہیں۔کہا جاتا ہے کہ آزادی سے قبل امریکہ برصغیر کے باشندو ں کی نظر میں نقل مکانی کیلئے پسندیدہ ترین ملک تھا، آج بھی پاکستانیوں کی امیگریشن کیلئے عالمی ممالک میں اولین ترجیح امریکہ ہے، یونائٹیڈ اسٹیٹس سینسز بیورو کی1970کی مردم شماری میں پاکستانی امریکیوں کو سفید فام شہریوںمیں شمار کیا گیا تھاجس کی بڑی وجہ انڈو یورپین تعلق بتائی جاتی ہے، تاہم 2020کی مردم شماری مہم میں پاکستانیوں کو ایشیائی امریکیوں کی فہرست میں شامل کیا گیا،امریکی وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف بی آئی بھی پاکستانی باشندوں کو مشرق وسطیٰ سے تعلق رکھنے والے وائٹ قرار دیتا ہے،تاہم ایک سروے کے مطابق پاکستانی تارکین وطن کی بڑی تعداد اپنی نسلی شناخت ایشیائی باشندوں سے منسلک کرتی ہے۔مجھے یہ جان کر نہایت خوشی ہوئی کہ پاکستان کے مایہ ناز فلاحی رہنماایدھی مرحوم کا نام یہاں بھی نہایت عزت و احترام سے لیا جاتا ہے۔یہاں میں نےدورہ امریکہ کے دوران مشاہدہ کیا کہ امریکی معاشرہ مجموعی طور پر انسانیت کا درد رکھنے والا معاشرہ ہے،یہاں لوگ سڑک پر گزرتی ایمبولنس اور فائر بریگیڈ کی گاڑی کو بخوشی راستہ فراہم کرتے ہوئے اپنی گاڑی ایک طرف کھڑی کردیتے ہیں، امریکی شہری دنیا بھر میں سب سے زیادہ فلاحی سرگرمیوں کیلئے مالی امداد فراہم کرنے والے ہیں، اسٹوڈنٹس کو زمانہ طالب علمی سے ہی والنٹیئر اور کمیونٹی ورک میں حصہ لینے کی ترغیب دی جاتی ہے۔ تاریخی طور پر امریکہ میں فلاحی سرگرمیوں کی داغ بیل برطانوی دور اقتدار میں ڈالی گئی جب امریکی سرزمین پر یورپی باشندوں کی آمد شروع ہوئی، مختلف نسلی ومذہبی اقلیتی گروہوں نے اپنی کمیونٹی کی فلاح و بہبود کیلئے فلاحی سرگرمیوں کا آغاز کیا جس کا سلسلہ اکیسویں صدی میں بھی تاحال جاری ہے، جدیدامریکہ کے بابائے قوم اور پہلے سفیر برائے فرانس بنجمن فرانکلن کی خدمات کو امریکہ میں فلاحی سرگرمیوں کے فروغ کیلئے نہایت قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، انہوں نے بطور مصنف، صحافی اور سیاسی مفکر ہم خیال لوگوں پر مشتمل جنتو نامی ایک ایسے سماجی کلب کی بنیاد رکھی جس کی ممبرشپ حاصل کرنےکےلئے انسانیت سے محبت کی شرط تھی۔ آج بھی اگر امریکہ کی امیر ترین کامیاب کاروباری شخصیات پر نظر ڈالی جائے تو وہ اپنی دولت اور وقت کا بڑا حصہ فلاحی سرگرمیوں کیلئے وقف کردیتے ہیں، طویل مدت تک دنیا کے امیر ترین شخص کااعزاز اپنے پاس رکھنے والے مائکروسوفٹ کے بانی بل گیٹس اور انکی سابقہ اہلیہ میلنڈا کا قائم کردہ ادارہ دنیا بھر سے غربت ، بیماری اور ناانصافی کے تدارک کیلئے سرگرم ہے، پچاس بلین امریکی ڈالرز کے اثاثے رکھنے والے اس امریکی ادارے کو دنیا کا بڑا عالمی فلاحی ادارہ مانا جاتا ہے ، آزاد کشمیر میں2005کے زلزلے کے متاثرین کیلئے بل گیٹس نے پانچ لاکھ امریکی ڈالر کی امداد فراہم کی۔ سوشل میڈیا کی دنیا میں انقلاب برپا کرنے والے فیس بک کے بانی مارک زکربرگ نے اپنی اہلیہ پرسکیلہ چان سےمل کر فلاحی کاموں کیلئے فیس بک کے 99ویں فیصد حصص عطیہ کردئیے ، اپنے بانی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے فیس بک بھی دنیا بھر میں تعلیم اور آگاہی سمیت مختلف سماجی سرگرمیوں کے فروغ کیلئے مالی تعاون فراہم کرنے کیلئے کوشاں ہے۔ امریکی معاشرے کی ایک نمایاں خصوصیت اولڈ ایج ہومز ہیں جہاں عمر رسیدہ شہریوں کی بڑی تعداد اپنی زندگی کے آخری ایام بسر کررہی ہے، ہمارے مشرقی معاشرے میں اولڈ ایج ہومز کے حوالے سے بے شمار غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں ، تاہم میں نے جب امریکہ میں مختلف اولڈ ایج ہومز کا دورہ کیا تو مجھے یہاں مقیم بزرگ لوگ مختلف مثبت سرگرمیوں میں اپنا وقت صرف کرتے نظر آئے جنکی عمریں 85سے 100سال تک تھیں، امریکی سینیئر ا سٹیزنز کا کہنا تھا کہ یہاں وہ سماجی تنہائی کا شکار نہیں ہوتے بلکہ اپنے ہم خیال لوگوں سے دوستی کرتے ہیں،ان کیلئے ڈاکٹرز کی بروقت موجودگی بھی باعث اطمینان ہے، اسی طرح انہیں یہاں سیکورٹی اور دیگر معاملات کی بھی بے فکری ہے۔میری نظر میں خدا کی بے پناہ رحمت ان لوگوں پر بے حساب برستی ہے جو مخلوق خدا کے دکھ درد دور کرنے کو اپنی زندگی کا مقصد بنا لیتے ہیں، ایک اچھے انسان کی پہچان ہے کہ وہ خدا کی عبادت کے ساتھ اپنے معاشرے کی بہتری کیلئے اپنا کردار ادا کرے۔ میں نے اپنے حالیہ دورہ امریکہ کے دوران امریکی معاشرے کی فلاحی سرگرمیوں کا نہایت قریب سے مشاہدہ کرنے کے بعد فیصلہ کیا ہے کہ وطن واپسی کے بعد پاکستان میں بھی عالمی معیار کی ایک ایسے فلاحی سرگرمی کا سلسلہ شروع کیا جائے جس سے ہر دُکھی انسان مستفید ہو سکے ۔ میںاپنے پیارے آنجہانی بھائی ڈاکٹر پریم کمار وانکوانی کی آتما کو شانتی پہنچانے کیلئے تھرپارکر میں کئی ایکڑ زمین پر محیط پریم نگر قائم کرنا چاہتا ہوں جہاں نہ صرف معاشرے کے پِسے ہوئے عمر رسیدہ بے گھر، معذورافراد اور یتیم بچوں کو ریلیف مل سکے بلکہ تھر پارکرکے بچوں کو زیورتعلیم سے بھی آراستہ کیا جاسکے۔ اس حوالے سے مجھے مالک پر کامل یقین ہے کہ وہ میرے نیک ارادوں کو عملی جامہ پہنانے کیلئے اپنا کرم عطاکرے گا۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)