• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کافی دنوں کے بعد میانوالی جانے کا اتفاق ہوا۔ ماڑی انڈس میں محفلِ مسالمہ تھا، اس میں شریک ہونا تھا۔ کچھ دوستوں کی فرمائش تھی کہ میں نے میر انیس کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے جو طویل مرثیہ لکھنا شروع کیا ہے، وہ اُنہیں سنایا جائے۔ ماڑی انڈس، میانوالی میں عمران خان کے حلقے کا ایک شہر ہے۔ کسی زمانے میں یہاں بہت بڑا ریلوے جنکشن ہوا کرتا تھا۔ یہاں سے ڈھائی فٹ والی ریلوے لائن شروع ہوتی تھی جو بنوں تک جاتی تھی۔ افسوس کہ اب تک اس ریلوے لائن کی پٹریاں بھی فونڈریوں میں پگھل پگھل کر اپنی کئی شکلیں بدل چکی ہیں۔ اس ڈھائی فٹ لائن والی ریلوے کے اختتام نے اس شہر کے جسم سے تقریباً روح ہی کھینچ لی تھی۔ اب وہاں کچھ ترقیاتی کام شروع ہوئے تھے، سڑکیں کچھ بن چکی، کچھ بن رہی تھیں۔ یہ دور میانوالی کی خوش بختی کا دور ہے۔ تیس چالیس سال کے بعد وہاں ترقی کا آغاز ہوا ہے۔ صبح میانوالی آیا تو میانوالی کے نئے ڈپٹی کمشنر خرم شہزاد سے ملاقات ہوئی، جی خوش ہوا ہے، خرم شہزاد کا میانوالی میں ڈپٹی کمشنر تعینات ہونا بھی میانوالی کی خوش قسمتی میں شمار ہوگا۔ ان سے پہلے وہاں عمر شیرچٹھہ ڈپٹی کمشنر تھے۔ انہوں نے بھی وہاں اتنا اعلیٰ کام کیا کہ انہیں لاہور کا ڈپٹی کمشنر لگا دیا گیا۔ انہوں نے میانوالی کی ترقی کے لئے تو جو کیا، سو کیا نمل نالج سٹی کے لئے بڑا کام کیا۔ یہ ان کا میانوالی پر ایک احسانِ عظیم ہے۔ میانوالی میں ایک یتیم خانہ تھا۔ انگریزوں کے زمانے میں بنایا گیا تھا۔ 1960میں میانوالی کے ڈپٹی کمشنر قاضی احمد شفیع نے اس کی عمارت تعمیر کرائی تھی مگر ساٹھ برسوں میں وہ عمارت کھنڈر میں بدل گئی تھی۔ یتیم خانہ خود یتیم ہو گیا تھا۔ عمر شیر چٹھہ نے وہاں نیا یتیم خانہ تعمیر کرایا۔ اس میں ڈی پی او مستنصر جاوید نے بھی ان کا بھرپور ساتھ دیا۔ دو کروڑ لوگوں سے جمع کئے اور یتیم خانہ نہ صرف تعمیر کرایا بلکہ اسے چلانے اور یتیم بچوں کی تعلیم و تربیت کے لئے صاحبزادہ عبدالمالک کے ساتھ ایک پورا نظام ترتیب دیا۔ اس سارے کام میں محسن خان کا نام نہ لینا بھی زیادتی ہوگی۔ شہر کے درمیان میں ایک مویشی منڈی ہوتی تھی جس کی وجہ سے شہری بہت پریشان ہوتے تھے۔ وہاں ایک شاندار فیملی پارک بنا دیا جو اپنے معیارمیں لاہور یا اسلام آباد کے کسی پارک سے کم نہیں۔ تعلیم اور صحت کے شعبے میں بھی بڑا کام کیا۔ میانوالی شہر میں سیوریج اور گلیوں کی تعمیر کے لئے تقریباً دو ارب روپے کے پی سی ون گورنمنٹ سے منظور کرائے۔ ان کے ٹینڈر ہونے والے ہیں۔ اس حوالے سے میانوالی کے ایم این اے امجد خان اورایم پی اے احمد خان بھچر کے کردار سے بھی انکار ممکن نہیں۔ پپلاں شہر میں سڑکوں کی تعمیر کا کام نصف صدی رکا رہا، وہ سڑکیں تقریباً بن چکی ہیں، میں اسے بھی کسی کارنامے سے کم نہیں سمجھتا۔ اس کارنامے میں پپلاں سے ایم پی اے وزیر جنگلات سبطین خان بھی پوری طرح شریک ہیں۔

عمر شیر چٹھہ اب لاہور کے ڈپٹی کمشنر ہیں۔ بےشک یہ عہدہ بڑا ہے مگر اس کے مسائل بھی بڑے ہیں مگر پورا یقین ہے کہ وہ لاہور کے لئے خوشبو بھری بادِ صبا ثابت ہوں گے جس سے کلیاں کھل اٹھیں گی۔ میرے خیال میں شہریوں کی سروس ڈیلیوری میں بہتری ان کی اولین ترجیح ہوگی۔ ان کے دروازے عوام کے لئے ہر وقت کھلے رہیں گے۔ وہ تجاوزات کے خاتمے کے لئے بھرپور کردار ادا کریں گے۔ شجرکاری مہم، پولیو اور ڈینگی مہم، کورونا وبا سے نمٹنے کیلئے ترجیحی بنیادوں پر اقدامات کریں گے۔

وہ میانوالی کے نئے ڈپٹی کمشنر کے لئے کچھ چیلنجز بھی چھوڑ کر آئے ہیں۔ ان میں سب سے اہم معاملہ ریلوے انڈر پاس کی ڈرینیج کا ہے۔ اگر چہ اس کے لئے فنڈز موجود ہیں مگر وہ انڈر پاس اتنا غلط بنایا گیا ہے کہ انجینئرز کہتے ہیں کہ اس کی ڈرینیج کا مسئلہ حل کرنے کے لئے اسے دوبارہ تعمیر کرنا پڑے گا۔ میرا ذاتی خیال ہے کہ جس انجینئر نے اسے ڈیزائن کیا اور جنہوں نے تعمیر کیا، ڈپٹی کمشنر کو چاہئے کہ ان کے خلاف باقاعدہ کارروائی کرے۔ ایک مسئلہ نئے لاری اڈے کی تعمیر کا بھی ہے۔ اس کا بہت خوبصورت ڈیزائن بنایا جا چکا ہے مگر وہاں بھی بڑے مسائل ہیں مگر مجھے یقین ہے کہ خرم شہزاد نہ صرف ان تمام مسائل کو حل کرنے میں کامیاب ہوں گے بلکہ میانوالی میں ترقی کے نئے دور کا آغاز ہوگا۔ ان سے میرا پرانا تعلق ہے، اس لئے ان سے ملے بغیر واپس لاہور نہیں آیا جا سکتا تھا۔ وہ کسی زمانے میں تھر پارکر میں ہوتے تھے۔ وہاں کے لوگ اب بھی انہیں یاد کرتے ہیں۔ جیسے وہاں کے غریب ہندو ڈاکٹر امجد ثاقب کو بھگوان اور ان کے بلاسود قرضے دینے والے ادارے ’’اخوت‘‘ کو بھگوان کا بینک کہتے ہیں۔ اسی طرح خرم شہزاد بھی تھرپار کر میں کسی بھگوان کی طرح یاد کئے جاتے ہیں۔ میانوالی آنے سے پہلے وہ وزیراعلیٰ سیکریٹریٹ میں ڈپٹی سیکریٹری تھے۔ سرگودھا ڈویژن کے تمام ایم پی ایز کے معاملات وہی دیکھتے تھے۔ وزیراعلیٰ عثمان بزدار نے مجھے بھی ان ہی کے حصے میں ڈالا ہوا تھا۔ میں نے بھی کسی کا کوئی کام کرانا ہوتا تھا تو ان ہی کو فون کرتا تھا اور کبھی مایوسی نہیں ہوئی۔ میں ان سے ملا اور صرف بتایا کہ میں میانوالی کے تین معاملات میں اپنا کردار ادا کرتا رہتا ہوں، ایک ادب کے حوالے سے، انہوں نے میانوالی ادبی چائے خانہ کی تعمیر کا وعدہ کیا۔ دوسرا ثقافت کے حوالے سے، اس کے لئے میں نے وزیراعلیٰ عثمان بزدار سے میانوالی آرٹس کونسل کے قیام کی درخواست کی تھی۔ اس پر کام شروع ہو گیا ہے، میرے خیال میں اس کا پی سی ون بنایا جارہا ہے اور تیسرا میڈیا کے حوالے سے، میرے دماغ میں ایک خوبصورت ’’میڈیا ویلیج‘‘ بنانے کا خواب بھی موجود ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین