• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پیپلز پارٹی کے چئرمین بلاول بھٹو ذرداری کے قاضی احمد روڈ پر استقبالی کیمپ میں پیپلز پارٹی اور پی پی مخالف قوم پرست پارٹیوں کے اتحاد سندھ ایکشن کمیٹی کے کارکنوں کے درمیںان تصادم اور ہوائی فائرنگ کے واقعہ کے بعد ڈی آئی جی عرفان بلوچ نے فرائض سے غفلت برتنے پر ڈی ایس پی ،ڈی آئی بی انچارج اور ایس ایچ او کو معطل کردیا، جب کہ تعلقہ تھانے پر سرکار کی مدیت میں سندھ ایکشن کمیٹی میں شامل سندھ ترقی پسند پارٹی ،سندھ یونائٹیڈ پارٹی ،جئے سندھ قومی محاذ کے 79 کارکنوں کے خلاف دھشت گردی سمیت دیگر دفعات پر مبنی مقدمات درج کرکے روپوش کارکنان کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارنے کا سلسلہ جاری ہے۔ 

اس سلسلے میں یہ صورت حال یوں بنی کہ پیپلز پارٹی کے چئرمین بلاول بھٹو ذرداری نے وفاق کے خلاف طبل جنگ بجاتے ہوئے سندھ پنجاب دورے میں جگہ جگہ عوامی اجتماعات سے خطاب اور عمران خان کی حکومت کی کارکردگی پر کڑی تنقید اور اسے ناکام ترین حکومت قرار دیا اور اس سلسلے میں بلاول بھٹودو روزہ دورے پر نواب شاہ بھی پہنچے، تو زرداری ہاؤس پر سابق صوبائی وزیر اور پیپلز پارٹی کے ڈویژنل صدر ضیاء الحسن لنجار ایڈوکیٹ اور دیگرنے استقبال کیا۔ 

بلاول بھٹو رات زرداری ہاؤس میں قیام کے بعد دوسرے روز پروگرام کے مطابق انہیں رانی پور روانہ ہونا تھا، اس سلسلے میں پیپلز پارٹی کی جانب سے قاضی احمد روڈ بالائی پل پر استقبالی کیمپ لگایا گیا، جہاں پی پی کے کارکن اپنے قائد کو دیکھنے کے لیے جمع تھے اور وہ جئے بھٹو کے نعرے بلند کررہے تھے کہ اسی اثناء میں سندھ ایکشن کمیٹی کے ’’دوڑ ‘‘ میں منعقدہ جلسہ میں شرکت کے لیے کاروں میں سوار قوم پرست جماعتوں کے کارکنان وہاں سے گزرے اور اسی دوران دونوں اطراف کے کارکنان کے درمیان نعرے بازی کا مقابلہ ہوگیا اور پیپلز پارٹی اور سندھ ایکش کمیٹی میں شامل جماعتوں جن میں سندھ ترقی پسند پارٹی ،سندھ یونائٹیٹڈ پارٹی ,جئے سندھ قومی محاذ سمیت دیگر قوم پرست جماعتوں کے کارکن شامل تھے، ایک دوسرے کے خلاف زبردست نعرے بازی کی، جب کہ نامعلوم افراد نے ہوائی فائرنگ بھی کی اور اس بات کاخدشہ تھا کہ خون خرابہ نہ ہوجائے۔ اسی دوران ڈی ایس پی ،سی آئی اے مبین پرھیار پولیس کی بھاری نفری کے ہمراہ موقع پر پہنچے اور صورت حال کو کنٹرول کیا اور سندھ ایکشن کے کارکنان کو گاڑیوں میں سوار کراکر روانہ کیا ۔ 

اس سلسلے پیپلز پارٹی کے سیکریٹری اطلاعات اسد اللہ چنہ نے جنگ کو بتایا کہ پیپلز پارٹی کے کارکنان اپنے قائد بلاول بھٹو کے استقبالی کیمپ میں جمع تھے کہ سندھ ایکشن کمیٹی کے کارکنان سوچے سمجھے منصوبے کے تحت وہاں پہنچے اور حملہ اور ہوائی فائرنگ کی۔ تاہم پیپلز پارٹی کے قائدین نے پرامن حکمت عملی اپنائی اور پولیس کے ساتھ مل کر جھگڑے کو ٹال دیا۔

ادھر اس واقعےکے بارے میں رابطہ کرنے پر ایس ایس پی امیر سعود مگسی نے بتایا کہ بلاول بھٹو کو پروگرام کے مطابق قاضی احمد ،سے نیشنل ہائی وے کے راستے رانی پور جانا تھا اور ضلع شہید بے نظیر آباد میں دولت پور سمیت دیگر مقامات پر ان کے استقبالی کیمپ بنائے گئے تھے۔ تاہم چئرمین کی روانگی سے قبل قاضی احمد بالائی پل پر یہ ناخوش گوار واقعہ پیش آیا، جہاں ’’دوڑ‘‘ جاتے ہوئے قوم پرست پارٹی کے اتحاد سندھ ایکشن کمیٹی کے کارکنان نے پیپلز پارٹی کے استقبالی کیمپ پر قوم پرستوں نے حملہ اور ہوائی فائرنگ کی اور دھشت پھیلائی۔ 

ایس ایس پی امیر سعود مگسی کا کہنا تھا کہ قوم پرست جماعتوں کے اتحاد سندھ ایکشن کمیٹی کے رہنماؤں کی جانب اس کارروائی کا مقصد امن وامان کی صورت حال کو بگاڑنا تھا۔ ہم نے قوم پرستوں کے عزائم کو ناکام بنایا۔ اگر پیپلز پارٹی اور قوم پرستوں کے درمیان جھگڑے میں کوئی قوم پرست معمولی زخمی ہوجاتا، تو سندھ میں اس کو ایشو بناکر مظاہروں کاسلسلہ شروع کردیا جاتا اور حالات کو خراب کیا جاتا۔ 

ایس ایس پی نے بتایا کہ ڈی آئی جی عرفان بلوچ نے فرائض سے غفلت برتنے پر ڈی ایس پی رفیق شاہ ،ڈی آئی بی انچارج عبدالحمیدجلبانی اور ایس ایچ او تعلقہ تھانہ غلام محمد بوذدارکو معطل کردیا، جب کہ قوم پرست جماعتوں کے 79کارکنوں اور لیڈروں کے خلاف دھشت گردی سمیت دیگر دفعات پر مبنی مقدمات درج کرکے سندھ ترقی پسند پارٹی کے صدر نثار کیریو سمیت پانچ ملزمان کو گرفتار کرکے مزید ملزمان کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے جارہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ کسی کو بھی قانون کو ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

ادھر ماڈل ٹرائل کورٹ میں قتل کا جرم ثابت ہونے پر الہی بخش بڑدی کو پھانسی اور اس کے بھائی اور شریک مجرم عبدالحمید بڑدی کو عمر قید کی سزا سنائی گئی ہے، استغاثہ کےمطابق 16 مئی 2010 کو دوڑ شہر میں مدرسے کے قاری عبدالرشید اور ان کے شاگرد عرفان ملک کو ملزمان نے گولیاں مار کر شہید کردیا تھا، قاری عبدالرشید کی شہادت کی وجوہات کے پیچھے جو محرکات بنے، وہ یہ تھے کہ ان کے مدرسہ کے استاد الہی بخش بڑدی سے اختلافات کے بعد قاری عبدالرشید نے انہیں فارغ کردیا، تو اس کو الہی بخش بڑدی برداشت نہ کرسکے اور اپنے بھائی عبدالحمید کے ساتھ مل کر قاری عبدالرشید کے قتل کا منصوبہ بنایا اور سولہ مئی کو قاری عبدالرشید پرعین اس وقت فائرنگ کردی، جب وہ مدرسہ پڑھا رہے تھے اور قاتل بھائیوں کا منصوبہ یہ تھا کہ وہ واردات کرکے فرار ہوجائیں گے۔ تاہم جیسے ہی انہوں نے واردات کی، مدرسے کے سینکڑوں طلبہ نے انہیں گھیر لیا اور رنگے ہاتھوں پکڑ کر پولیس کے حوالے کردیا۔

اس سارے واقعہ میں اہم بات یہ تھی کہ مدرسے کے قیام میں قاری عبدالرشید کوری کے ساتھ الہی بخش بڑدی بھی پیش پیش تھے اور ان کا دعویٰ تھا کہ وہ بھی مدرسے کے قیام میں برابر کے شریک کے شریک تھے، لیکن انہیں مکھن میں بال کی طرح نکال کر پھینک دیا گیا اور اس طرح ان دونوں بھائیوں نے قاری عبدالرشید کو راستے سے ہٹانے کی منصوبہ بندی کی اور کو قتل کردیا۔ تاہم اس قتل کا مقدمہ ہو یا دیگر عام کیس کا اب بینچ اور بارکو اس بارے میں سوچنا اور قانونی سقم کو دور کرنا ہوگا کہ مقدمات کو جلد از جلد نمٹا کر فوری انصاف کس طرح دیا جائے تاکہ انصاف کے حصول کے لیے برسوں دھکے کھانے اور جمع پونجی خرچ کرنے سے لوگ بچ سکیں، جب کہ اس بارے میں پولیس کی بھی ذمے داری بنتی ہے کہ وہ بھی ایسی انویسٹی گیشن کرکے کیس بنائے کہ ملزم اپنے انجام کو پہنچ سکیں اور اس سلسلے میں پاکستان بار کونسل کو چاہیے کہ وہ انقلابی فیصلہ کرکے وکلاء کی آئے دن کی ہڑتالوں کا سلسلہ بند کرائے اور کوئی ہڑتال اگر ضروری بھی ہو تو اسے علامتی طور پر ایک ادھ گھنٹے کے لیے محدود وقت کے لیے کیا جائے یا وکلاء صاحبان بازو پر سیاہ پٹی باندھ کر عدالتی کارروائی میں حصہ لیں اور مقدمات کو طول دینے کے حربے کے طور پر مسلسل تین پیشی پر نہ آنے والے وکیل کو اس عدالت میں مقدمات کی پیروی سے روک دیے جانے کی سزا دی جائے، تاکہ مقدمات کی سماعت کے تاخیری حربوں کا خاتمہ اور فوری انصاف کا حصول ممکن ہوسکے۔

تازہ ترین
تازہ ترین