سندھ میں جیلوں کو اصلاحی گھر بنانے اور کرپشن سے پاک کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے ، جس کے لیے حکومت سندھ نے اقدامات شروع کردیے ہیں۔ سندھ کی تمام جیلوں میں موجود قیدیوں کے جرائم پیشہ افراد کے نیٹ ورک سے مکمل طور سے روابط ختم کرنے کے لیے حکومت سندھ کی جانب سے جدید ٹیکنالوجی کی مدد بھی حاصل کی جائے گی۔ سندھ میں تین مرکزی جیلیں ہیں، جن میں کراچی سینٹرل جیل ، حیدرآباد سینٹرل اور سکھر سینڑل جیل شامل ہیں۔
ان میں دہشت گردی سمیت دیگر سنگین جرائم میں ملوث خطرناک قیدی موجود ہیں۔ ان تینوں جیلوں میں سیکیورٹی کے سخت انتظامات کے ساتھ طاقت ور جیمرز سسٹم نصب کیا گیا ہے، جس کے باعث قیدیوں کا جیل کی باہر کی دُنیا سے رابطہ مکمل طور منقطع ہوگیا ہے۔ صوبے کے چند اضلاع میں اس قسم کی خبروں کی باز گشت سنائی دے رہی ہے کہ صوبائی حکومت سندھ کی تمام جیلوں کو اصلاح خانوں میں بدلنا چاہتی ہے۔ سندھ واحد صوبہ ہے، جس نے جیلوں کے حوالے سے قانون سازی کی ہے۔ سکھر کے قدیم ڈسٹرکٹ جیل کو جو اب وومن اور چلڈرن جیل ہے، شہر سے باہر منتقل کرکے بین الاقوامی معیار اور جدید سہولتوں سے آراستہ کرکے ماڈل جیل بنانے کا فیصلہ بھی کیا گیا ہے۔
اس سلسلے میں مشیر جیل خانہ جات، میر اعجاز خان جکھرانی، وزیر اعلی سندھ کے معاون خصوصی سابق مئیر سکھر بیرسٹر ارسلان اسلام شیخ اور جیل حکام کے درمیان سکھر ہاوس میں ایک اہم ملاقات بھی ہوئی ہے، جس میں وومن اور چلڈرن جیل کو شہر سے باہر منتقل کرنے پر غور و خوض کیا گیا اور اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے مشترکہ طور پر صوبائی حکومت، وزیر اعلی سندھ اور کابینہ کے سامنے پیش کرنے اور منظوری کے بعد جلد از جلد منصوبے پر عمل درآمد کیے جانے پر اتفاق ہوا۔
سکھر ہاوس میں اس اہم اجلاس کے بعد صوبائی مشیر جیل خانہ جات میر اعجاز جکھرانی اور وزیر اعلی سندھ کے معاون خصوصی بیرسٹر ارسلان اسلام شیخ نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو بتایا کہ پیپلزپارٹی کی حکومت سندھ کی تمام جیلوں کو اصلاح خانےبنانا چاہتی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ سندھ حکومت کا مشن ہے کہ قیدیوں کو اچھا شہری بنانے کے لیے جیلوں میں اصلاحات لائی جائیں۔ تمام جیلوں میں قیدیوں کو تعلیم، فنی مہارت اور مختلف ہنرکی تربیت فراہم کرکے انہیں کارآمد شہری بنایا جائے۔ جیلوں میں چھوٹی صنعیتیں لگائی جائیں، جہاں قیدی موجودہ دور کی ترجیحات کے مطابق ہنر سیکھیں اور ان کارخانوں میں خدمات انجام دے کر کچھ پیسہ کما سکیں، جو جیل سے رہائی کے بعد ان کے کام آسکے۔ حکومت کی کوشش ہے کہ جب یہ قیدی اپنی سزا پوری کرکے جیل سے رہا ہوں تو یہ کار آمد شہری بن کر نکلیں، معاشرے میں باعزت مقام حاصل کریں۔
مشیر جیل خانہ جات کا کہنا تھا کہ سکھر ڈسٹرکٹ جیل میں قائم چلڈرن اینڈ وومین جیل کو شہر سے باہر منتقل کرنے کی تجویز کو وزیر اعلیٰ سندھ سمیت سندھ کابینہ اور اسمبلی میں منظوری کے لیےپیش کیا جائے گا۔ جیل کی زمین کو قبضہ مافیا سے بچانے کے لیے موجودہ پلاٹ کو سکھر کے عوام کی فلاح و بہبود کے لیے استعمال میں لایا جائےگا، جس میں میوزیم، پینے کے صاف پانی کی فراہمی، ڈرینیج اور پارکس کی اسکیمیں زیر غور ہیں۔ انہوں نے کہا کہ 2018 میں جیلوں کی اصلاح کے حوالے سے قانون پاس ہونے کے بعد جیلوں میں بہتری آرہی ہے اور قانون پر عمل درآمد ہورہا ہے۔
اس قانون کو اب پنجاب سمیت دیگر صوبے بھی اپنارہے ہیں۔ جیلوں میں سیکیورٹی کے فول پروف انتظامات کرکے حکومت کی کوشش ہے کہ لاڑکانہ جیل جیسے واقعات کا دوبارہ اعادہ نہ ہو۔ لاڑکانہ جیل میں قیدیوں کو مختلف مسائل درپیش تھے دراصل سفارش کلچر کی وجہ سےجیل میں سپرنٹنڈنٹ کی حیثیت سے ایسے افسر کا تقرر کیا گا جس نے جیل میں کرپشن کر فروغ دیا، سکیورٹی کے نظام کو ابتر کردیا، جس کی وجہ سے باہر سے جیل میں منشیات اور اسلحہ پہنچنے لگا۔ قیدیوں کے ساتھ ناروا سلوک کیا جانے لگا۔
جب ہمیں اس کی اطلاع ملی تو ہم نے کارروائیاں شروع کیں، جیل سپرنٹنڈنٹ کا تبادلہ کردیا گیا۔ لیکن جو چیزیں قیدیوں کے پاس پہنچ گئی تھیں، وہ اب تک برآمد نہ کی جاسکیں ، کیوں کہ اگر انتظامیہ کی جانب سے طاقت کا استعمال کیا جاتا ہے، تو اس سے جیل میں امن و امان کی صورت حال بگڑنے کا خطرہ ہے۔ جس طرح کچھ عرصے قبل قیدیوں نے جیل میں بغاوت کردی تھی، پولیس اہل کاروں کو یرغمال بنا کر ان پر تشدد کیا تھا، ہم ایسی صورت حال دوبارہ نہیں چاہتے، قیدیوں کے ساتھ افہام و تفہیم کی فضا پیدا کرکے حالات کو بہتری کی طرف لارہے ہیں۔
میری کوشش ہے کہ قیدیوں اور جیل کے عملے کو جو بھی مسائل اور مشکلات درپیش ہیں انہیں حل کیا جائے۔ جیلوں سے کرپشن کے خاتمے کو یقینی بنایا جائے۔ اس حوالے سے ترجیحی بنیادوں پر اقدامات کئے گئے ہیں۔ سندھ کی جیلوں میں چکری سسٹم کو ختم کیا گیا ہے، جس سے کرپشن کی روک تھام میں مدد ملی ہے، مزید بہتری کے لیے کوششیں کی جارہی ہیں اور کہیں بھی قیدیوں پر تشدد یا سختی کے واقعات رونما نہیں ہوئے، اگر ایسی کوئی شکایت کا علم ہوتا ہے تو اس کا فوری نوٹس لیا جاتا ہے۔
جیلوں میں پہلے ایک سرکل ہوتا تھا، جسے چکری کہتے تھے، اس سرکل میں قیدی کو لے کرجاتے تھے، گرمی میں دھوپ اور سردی میں ٹھنڈ میں رکھتے تھے۔ قیدیوں سے کہا جاتا تھا کہ پیسے دو گے تو بہتر جگہ دیں گے۔ اب پہلے جیسی صورت حال نہیں ہے۔ پہلے قیدی جیل میں داخل ہوتا تھا، تو پرانے قیدی اور جیل اہل کار اسے گیٹ پر ہی پکڑ کر مارنا شروع کردیتے تھے۔ صوبے کی تمام جیلوں سے اس طرح کے مظالم کا خاتمہ کردیا گیا ہے۔
معاون خصوصی سابق مئیر سکھر بیرسٹر ارسلان اسلام شیخ نے صحافیوں کو بتایا کہ اس وقت تینوں صوبوں کے مقابلے میں سندھ کی جیلوں کی صورت حال زیادہ بہتر ہے۔ہم نے انگریز دور کے فرسودہ جیل ایکٹ کو ختم کرکے 2018 کا نیا ایکٹ بنایا ہے، جس کے بہتر نتائج برآمد ہو رہے ہیں۔ جیل میں معمولی جرائم کی پاداش میں لائے جانے والے قیدیوں اور ان کے عزیز و اقارب کو جیل کے عملے کے ناروا سلوک، قیدیوں سے ملاقات یا سہولیات فراہم کرنے عوض رشوت کا مطالبہ اور دیگر مسائل درپیش ہیں۔
جیلوں میں منشیات اور موبائل فون کی موجودگی سمیت دیگر غیر قانونی اشیاء اور سہولیات کی خبریں بھی میڈیا کی زینت بنی ہوئی تھیں اور آج بھی اکثر جیلوں میں انتظامیہ کی جانب سے سرچ آپریشن کیا جاتا ہے، جس کا مقصد جیل قوانین کے منافی اشیاء کو برآمد کیا جائے۔ تاہم اب ان واقعات میں نمایاں کمی دیکھی جارہی ہے۔ اس وقت سندھ کی مختلف جیلوں میں گنجائش سے زیادہ قیدی ہیں، جس کے باعث جیل انتظامیہ اور قیدیوں کو مسائل کا سامنا ہے۔ جیل پولیس کو بھی جدید خطوط پر استوار کرنے کی ضرورت ہے تاکہ اس کی کارگردگی میں بہتری لائی جاسکے۔
انہوں نے کہا کہ انگریز دور کے جیل ایکٹ میں قیدیوں کے ساتھ غیر انسانی سلوک کرنا، بیڑیاں لگانا، پھٹکے لگانا، اذیت ناک سزائیں دینا اور قید تنہائی میں رکھنے جیسے مظالم عام سی بات تھی۔ اب جو قانون اسمبلی نے پاس کیا ہے، اس کے مثبت اثرات مرتب ہوں گے ۔ موجودہ قانون میں جیل میں قیدیوں کو گرم اور سرد موسم سے محفوظ رکھنے کے لیے بھی انتظامات کیے جائیں گے۔ سندھ میں جیل اصلاحات پر عمل درآمد شروع ہوگیا ہے اور اب قیدیوں کو اذیت ناک سزائیں نہیں دی جاتیں اور نہ ہی انہیں قید تنہائی میں رکھا جاتا ہے۔
ایک پولیس افسر کے مطابق جیلوں کو اصلاح گھر بنانا حکومت کا احسن اقدام ہے ،کیوں کہ ماضی میں سندھ کی جیلیں عقوبت خانے اور ڈاکوؤں اور جرائم پیشہ عناصر کی نرسریاں رہی ہیں۔ڈاکوؤں اور جرائم پیشہ عناصر کے ساتھ معمولی جرم کے قیدی بھی اچھا شہری بننے کے بجائے ڈاکوؤں کے گینگ میں شامل ہوجاتا یا ان کا سہولت کار بن جاتا تھا۔ کچھ قیدی جیل سے نکل کر جرائم کی دنیا میں پہنچ جاتے تھے، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جس طرح پولیس سمیت دیگر شعبوں میں بہتری آرہی ہے، اسی طرح جیلوں کو بھی ٹارچر سیل کےبجائے اصلاح خانے بنانے پر کام کیا جارہا ہے۔