• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دو دہائیوں کے قبضے کے بعد اپنے وقت کی بہترین اور مضبوط ممالک کی قابض فوج آخر کار اپنا سا منہ لئے کابل سے نکل گئی اور کابل انہی طالبان کے پاس دوبارہ آگیا جن کو بزورِ طاقت یہاں سے بےدخل کیا گیا تھا۔ تمام عالمی طاقتوں کے جدید اسلحہ کے انبار اور لاکھوں فوجی افغان طالبان کو ختم نہ کر سکے اور عزم، حوصلہ اور یقینِ کامل کامیاب ہوا۔ 

20سال میں بھی نیٹو افواج افغانستان پر اپنا مکمل کنڑول قائم نہ کر سکیں۔ کٹھ پتلی حکمران اشرف غنی کی حکومت ریت کی دیوار ثابت ہوئی اور خود اس نے راہِ فرار اختیار کرکے اپنی جان بچائی۔ 

تاریخ کے دھارے میں خود کو بزدل ترین حکمران کے طور پر پیش کرنے والے اشرف غنی نے نہ اپنی فوج اور نہ اپنی قوم کی حفاظت کی بلکہ ان کو رہنمائی سے محروم کرکے خود گم نامی کی زندگی گزارنے کو ترجیح دی۔

افغانوں نے ایک مرتبہ پھر ثابت کر دیا کہ ان کے مادرِ وطن پر بڑی سے بڑی فوج بھی قابض نہیں ہو سکتی۔ دنیا کا جدید ترین اسلحہ اور بہترین تربیت یافتہ افواج بھی افغانوں کے جذبہ حریت کو کچلنے میں ناکام رہیں۔ 

افغانستان کی تاریخ میں کبھی کسی قوم نے انہیں غلام نہیں بنایا اور یہ خطہ ہمیشہ آزاد رہا ہے۔ کوئی غیرملکی یہاں قابض نہیں رہ سکا۔ اپنے وقت کی دو سپر پاورز اور ان کے اتحادی ناکامی کا تمغہ سجائے یہاں سے رخصت ہو ئےاور اب افغانستان میں طالبان کا حقیقی امتحان شروع ہو گیا ہے کہ وہ کس طرح بین الاقوامی منظر نامے میں افغانستان کو ایک جدید اسلامی ریاست کے طور پربطور ماڈل پیش کرتے ہیں۔ 

تمام دنیا کی نظریں کابل کی طرف لگی ہوئی ہیں۔امریکہ اپنے خواریوں کے ساتھ یہاں سے نکل چکا ہے اس کے سا تھ ہی مغربی تہذیب کے تمام آثار رخصت ہو گئے جو افغان تہذیب کو خود میں سمونے اور اپنی تہذیب کے اثرات افغانوں پر قائم کرنے کے لئے آئے تھے ۔ 

قابض افواج کے انحلا ء کے ساتھ ہی ان کے تمام سہولت کار بھی یہاں سے رخصت ہو گئے اور جو رہ گئے ہیں وہ نکلنے کی تاک میں ہیں۔ افغان طالبان نے جانے والوں کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہ ڈالی جس سے ثابت ہوا کہ انہوں نے دوحہ میں کیے گئے معاہدوں کی پاسداری کی ہے اور کابل و دیگر شہروں میں افراتفری اور لوٹ مار نہیں ہونے دی۔

سیکورٹی کے خاطر خواہ انتظامات کیے گئے۔ افغان شہریوں خصوصاً خواتین کی حفاظت کی گئی اور ان کا احترام برقرار رہا۔ یہی وہ معاملہ تھا جس پر مغرب میں بڑا اضطراب پایا جا رہا ہے کہ طالبان خواتین کے ساتھ کیا سلوک کریں گے۔ 

کیا وہ انہیں گھروں میں محصور کر دیں گے یا پھر باہر نکلنے اور ملازمت کرنے کی اجازت دیں گے، ابھی تک کی آمدہ اطلاعات کے مطابق خواتین کو شرعی لباس میں کام پر واپس آنے کی اجازت دے دی گئی ہے۔

افغان طالبان نے غیر ملکی افواج کے 20 سالہ قبضے سے بہت کچھ سیکھا ہے۔اب ان کے پاس تعلیم بھی ہے اور تجربہ بھی ۔ وہ اپنے گزشتہ دور اقتدار سے بھی بہت کچھ سیکھ چکے ہیں لہٰذا اس مرتبہ وہ پوری تیاری سے عنانِ حکومت سنبھالیں گے اور ہر چیز کو ایک منظم انداز میں رائج کریں گے۔ امیر کی اطاعت کے جذبے سے سرشار کمانڈ کی یونٹی کے تحت نظام کو چلانا نہایت آسان اور کامیاب رہے گا۔ 

مغرب کو ان کی مخالفت کی بجائے ان کو معاونت فراہم کرنی چاہئے تا کہ وہ اقوام کے دھارے میں شامل ہو کر عالمی امن کے لئے اپنا کردار ادا کر سکیں ۔ اس سلسلے میں روایتی اندازے لگانے کی بجائے حقیقی مدد فراہم کرنے کی ضرورت ہے ۔ بین الاقوامی برادری کو طالبان اور ان کی سوچ کیساتھ مثبت طریقے سے پیش آنا ہو گا۔ 

شروع ہی میں ان کے طرز حکومت اور طرز سیاست پر تنقید کی بجائے انہیں بین الاقوامی دھارے میں شامل ہونے کا چانس دیا جائے۔ کمزور معیشت کو سہارا دینے اور افغان قوم کو فاقوں سے بچانا ہر چیز پر مقدم ہے ۔ تعلیم کا فروغ اور جدید ذرائع مواصلات کی فراہمی طالبان کے لئے اقوامِ عالم میں اپنا مقام بلند کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔

طالبان حکومت کو خوراک کی مستقل بنیادوں پر فراہمی کی اشد ضرورت ہو گی جس کا روٹ پاکستان سے جائے گا۔ اس سلسلے میں ہمیں پھونک پھونک کر قدم رکھنے کی ضرورت ہے۔ نئی افغان حکومت سے معاملات طے کرنے کا مرحلہ بڑا نازک ہے۔ ایک طرف بین الاقوامی برادری کا ساتھ ہے تو دوسری طرف برادر ہمسائیگی کے اپنے تقاضے ہیں۔ مشکل وقت میں ساتھ دینے والوں کو ہمیشہ یاد رکھا جا تاہے۔ 

خوراک اور دوسری بنیادی چیزیں فراہم کرنے کے لئے ہمیں روایتی بین الاقوامی ہٹ دھرمی کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہئے ۔ خوراک اور دوسری اشیائے ضروریہ کے لئے فراخ دلی کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔دوسرے افرادی قوت کی تربیت کے لئے بھی ہمیں اپنے اداروں کے دروازے افغان حکومت کے لئے کھول دینے چائیں۔ تعلیم کے میدان میں ان کی مدد کی اشد ضرورت ہے ۔جدید تعلیم طالبان کی اشد ضرورت ہے۔ پڑھا لکھا افغان شہری جدید معاشرے کے قیام میں ممد ثابت ہو سکتا ہے۔

افغانستان میں موجود تمام لسانی، علاقائی گروپوں کے علاوہ مغرب سے متاثر کابل کی اشرافیہ کو ساتھ ملا کر ایک وسیع البنیاد حکومت کا قیام ضروری ہے جو گروپ بھی حکومت سے باہر ہو گا وہ حکومت سے عسکری طور پر نبردآزما رہے گا اور کابل کا امن و امان خطرے میں رہے گا۔ 

طالبان نے جس طرح عام معافی کا اعلان کیا اور تمام گروپوں کو ساتھ لے کر چلنے کا اعادہ کیا ہے، وہ خوش آئندہ ہے۔ امید کی جا سکتی ہے کہ ان عوامل پر بھروسہ کرتے ہوئے ایک پُرامن، وسیع البنیاد اور جامع حکومت کا جلد قیام ممکن ہو گا اور کابل اپنے ماضی کے برعکس ایک پُرامن دارالحکومت ثابت ہوگا۔

تازہ ترین