• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سردار عطاء ﷲ خان مینگل بھی اس دارِ فانی سے رخصت ہو گئے،ان کے انتقال سے پاکستان میں تدبر ، رواداری ، وقار اور اصول پرستی کی سیاست کا ایک عہد ختم ہو گیا ۔ 

پاکستان میں سیاسی قیادت کے بڑھتے ہوئے بحران اور فقدان کی وجہ سے سردار عطاء ﷲ خان مینگل کے سانحہ ارتحال کا دکھ بہت زیادہ ہوا ہے ۔ یہ پاکستان کی سیاست کا ایک عظیم نقصان ہے۔

یہ واقعہ لوگوں نے بتایا کہ جب وہ چند دوستوں کے ساتھ کراچی میں اپنی رہائش گاہ پر کچھ سیاسی شخصیات کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے ۔ ایک اردو اخبار کا صحافی ان کے انٹرویو کے لئے آیا ۔ 

یہ واقعہ بلوچستان میں ان کے بیٹے سردار اختر خان مینگل کی وزارت اعلیٰ کے خاتمے کے کچھ ماہ بعد کا ہے ۔ سردار عطاء ﷲ خان مینگل کو جب بتایا گیا کہ کوئی صحافی ان کا انٹرویو کرنے آیا ہے تو انہوں نے اپنے ملازم سے کہا کہ انہیں اندر لے آو ۔ 

جب وہ صحافی آیا تو سردار صاحب نےخود چل کر دروازے پر اس کا استقبال کیا اور پھر اپنے ساتھ صوفے پر بٹھایا ۔ بلوچ روایت کے مطابق اس سے حال احوال پوچھا ۔ جب صحافی نے کہا کہ وہ ایک اردو اخبار سے سردار صاحب کا انٹرویو کرنے آیا ہے تو سردار صاحب نے انتہائی محبت بھرے لہجے میں اسے مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ ان کا مہمان ہے ۔ 

آپ بیٹھیں،چائے پیئیں ، کھانا کھائیں اور سیاست پر آف دی ریکارڈ گفتگو کریں ۔ وہ انٹرویو نہیں دے سکتے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اردو میڈیا ہماری سیاسی فکر کو سمجھنے کی زحمت نہیں کرتا ۔

 ہم کہتے ہیں کہ وفاق پاکستان تب مضبو ط ہو گا ، جب وفاقی اکائیاں مطمئن اور مضبوط ہوں گی ۔ پاکستان جن قوموں کا تاریخی وطن ہے ، ان کو حقوق دیئے جائیں تو پھر کوئی مسئلہ نہیں ۔ اسلئے انٹرویو کے لئے تو معذرت لیکن آپ ہمارے لئے محترم ہیں اور اس گھر میں ہمیشہ عزت و احترام کے ساتھ آپ کا استقبال کیا جائے گا ۔

 جب میں نے دیکھا کہ سردار عطاء ﷲ خان مینگل جیسے عظیم شخص کے انتقال کی خبر کو اتنی اہمیت نہیں دی جا رہی ، جتنی دی جانی چاہئے تھی تو مجھے مذکورہ بالا واقعہ یاد آیا ۔ 

یہ ایک اچھا موقع تھا ، جب ہم نئی نسل کو بتا سکتے تھے کہ سردار عطاء اللّٰہ مینگل کون تھے ۔ 

ان کے نظریات کیا تھے اور وہ کس قدر مثالی سیاست دان تھے ؟ اگر میڈیا میں سردار عطاء ﷲ خان مینگل کی ہمہ جہت شخصیت اور انکے سیاسی نظریات پر زیادہ پروگرام کئے جاتے تو یہ فرمائشی پروگرام نہ ہوتے بلکہ ان سے سردار صاحب کا شکوہ بعد از مرگ دور ہو جاتا اور بحیثیت قوم ہم پرسے ایک بوجھ اتر جاتا اور دوسری طرف ہم بلوچستان کے عوام کے اس نقطۂ نظر کو نئی نسل تک پہنچاتے ، جس کی نمائندگی سردار عطاء ﷲ مینگل جیسے بلوچستان کے سیاست دان کرتے رہے ۔ 

ہم اس وقت ایوب خان کے خلاف طلباکی تحریک کا حصہ تھے، جب 1962ء میں کراچی کے علاقے لیاری کے ککری گراونڈ میں سردار عطاء ﷲ خان مینگل کو ایک بڑے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے سنا تھا ۔ 

انہوں نے انتہائی مدبرانہ اور مدلل انداز میں تقریر کی ۔ ان کے ہر جملے پر مجمع کا ردعمل غیر معمولی تھا ۔ان کا یہ کہنا تھا کہ وفاق پاکستان صرف جمہوریت سے چل سکتا ہے ۔ وہ مرتے دم تک اپنے ان الفاظ پر قائم رہے۔

یکم مئی 1972ء کو انہوں نے بلوچستان کے پہلے منتخب وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے حلف اٹھایا ۔ ان کی حکومت 9ماہ بعد ختم کر دی گئی ، جس کی وجہ سے بلوچستان میں جمہوری عمل پر لوگوں کا اعتماد بری طرح متزلزل ہوا ۔ 

اس کے باوجود سردار مینگل ، غوث بخش بزنجو اور دیگر بلوچ رہنماوں نے 1973 کا آئین بنانے میں مدد کی تاکہ پاکستان کو ایک حقیقی وفاقی پارلیمانی جمہوری ریاست بنایا جا سکے ۔ 

وزارتِ اعلیٰ کے غیر آئینی خاتمے کے بعد سردار عطا ﷲ مینگل کے نوجوان صاحبزادے 20سالہ اسدللہ خان مینگل کو کسی نے اغواء کرکے شہید کر دیا۔ یہ عظیم سانحہ بھی سردار عطاء ﷲ مینگل کو اپنے نظریات سے نہ ہٹا سکا اور وہ ایک ایسے وفاق پاکستان کے حامی رہے ، جس میں پاکستان کی قوموں کو تمام آئینی اور جمہوری حقوق حاصل ہوں اور وفاقی اکائیوں کو وہ خود مختاری حاصل ہو ، جس کا قرار داد پاکستان میں ان سے وعدہ کیا گیا تھا۔

ان کی باتوں کو غلط رنگ دینے کی کوشش کی گئی ۔ اگر ان کی اس بات کا ادراک کر لیا جائے تو یہ پاکستان اور اس کی سلامتی کے مفاد میں ہے ۔ 

پاکستان صرف جمہوریت سے چل سکتا ہے اور جمہوریت بھی ایسی ، جس میں غیر سیاسی قوتوں کی مداخلت نہ ہو ۔ سردار عطاء ﷲ مینگل جیسے سیاست دانوں کو پیچھے دھکیلا جاتا ہے ۔ 

وہ بلوچستان کے علیحدگی پسندوں اور وفاق پرستوں کے درمیان پل ہیں ۔ دونوں حلقوں میں ان کا احترام ہے ۔ سردار مینگل جیسے لوگوں نے حقیقی وفاق پاکستان کے لئے جدوجہد جاری رکھی ۔

 انہوں نے بلوچ علیحدگی پسند تنظیموں سے وابستگی اختیار نہیں کی بلکہ ’’ سندھی بلوچ پشتون فرنٹ ‘‘ اور ’’پاکستان کی مظلوم قوموں کی تحریک ( پونم ) ‘‘ کے پلیٹ فارم سے پاکستان کی دیگر قوموں کے ساتھ مل کر جمہوری وفاق پاکستان کیلئے آخری دم تک کوششیں کیں ۔

طویل اور پر مصائب سیاسی جدوجہد کا ایک عہد سردار عطاء ﷲ مینگل کے نام سے تاریخ میں جڑا رہے گا۔ پاکستان کی قومی جمہوری مزاحمتی تحریک کا وہ اہم ترین اور شاید آخری کردار تھے ۔ وہ نواب اکبر بگٹی ، غوث بخش بزنجو ، میر گل خان نصیر ، سردار شیر باز خان مزاری اور اس طرح کے بلند پایہ سیاست دانوں کے قبیلے سے تعلق رکھتے تھے ۔ ان کا سیاست ، فلسفہ ، تاریخ، علم الانسان اور دیگر علوم پرگہرا مطالعہ تھا ۔ ان کی شخصیت میں وقار تھا لیکن مزاج میں وضع داری اور عاجزی تھی۔ 

ہر ایک کا احترام کرنا ان کا بنیادی رویہ تھا ۔ وہ قبائلی سردار تھے لیکن انہوں نے وزیر اعلیٰ بنتے ہی صوبے میں قبائلی ، سرداری اور جرگہ سسٹم ختم کرنے کی قرار داد منظور کرائی ۔

 اگر وہ اپنی آئینی مدت پوری کرتے تو یہ قانون بن جاتا ، انہوں نے لینڈ ریفارمز کیں ، میڈیا کو مکمل آزادی دی ۔ وہ ترقی پسند نظریات کے حامل تھے ۔ میں سمجھتا ہوں کہ وہ ہمارے حقیقی قومی ہیرو ہیں ، جنہیں نئی نسل سے آشناکرنا چاہئے۔

تازہ ترین