• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وزیر اعلیٰ پنجاب کے سابق پرنسپل سیکرٹری طاہر خورشید (ٹی کے) تین دن قبل جمعہ کے روز دوپہر ساڑھے گیارہ بجے چیف سیکرٹری پنجاب جواد رفیق ملک سے ملے۔ دوپہر کا کھانا بھی اکٹھے کھایا اور دو گھنٹے تک ایک ساتھ رہے۔ لگتا ہے کہ وزیر اعلیٰ کاکوئی پیغام لے کر آئے تھے کیونکہ اگلے ہی روز وزیر اعلیٰ سے منسوب یہ بیان آگیا کہ انہوں نے ایک مرتبہ پھر چیف سیکرٹری اور آئی جی پنجاب کو تبدیل کرنے کافیصلہ کیا ہے جس کی وجہ انتظامی امور چلانے میں مزید بہتری لانا ہے۔ موجودہ چیف سیکرٹری جواد رفیق ملک کو عہدہ سنبھالے ایک سال 4 ماہ ہوگئے ہیں۔ اس سے قبل پنجاب کے 4چیف سیکرٹری اور 4آئی جی پولیس تبدیل کئے جا چکے ہیں۔ چیف سیکرٹری جواد رفیق ملک کے ہاتھ عہدہ سنبھالنے کے بعد پہلی مرتبہ طاقت آئی اور انہوں نے کمشنر، ڈی سی اور سیکرٹری تبدیل کردیئے۔ جہاں تک مجھےپتہ ہے کہ اپنی تعیناتی کے دوران جواد رفیق ملک نے اس سے قبل اپنی مرضی سے جو ایک تعیناتی کی وہ سیکرٹری سروسز صائمہ سعید کی ہے کیونکہ وہ اس سے قبل ان کے ساتھ کام کر چکی تھیں۔ اس کے علاوہ پنجاب میں ہونے والی تمام تبدیلیاں اور تعیناتیاں وزیر اعلیٰ کی مرضی اور احکامات سے کی گئیں۔ چیف سیکرٹری نے اپنی ٹیم بنانا شروع کی تو شاید وزیر اعلیٰ یہ سمجھ رہے ہیں کہ انہیںسائیڈ لائن کیا جارہا ہے کیونکہ اس سےقبل سابق چیف سیکرٹری میجر (ر) اعظم سلیمان کے متعلق بھی یہی رائے قائم ہو چکی تھی کہ وہ اپنی انتظامی ٹیم بنا رہے ہیں اور وزیر اعلیٰ کے احکامات کو اکثر اوقات نظر انداز کردیتے ہیں۔ میجر (ر) اعظم سلیمان جب چیف سیکرٹری تھے تو میں نے ان سے اس بارے میں پوچھا ، انہوں نے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ وزیر اعلیٰ صوبے کے چیف ایگزیکٹو ہیں وہ ان کے احکامات کوکس طرح اور کیونکر نظر انداز کریں گے۔ چیف سیکرٹری کے پی کے کاظم نیاز ایڈیشنل سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ ڈویژن تعینات تھے جب انہیں کے پی کے تعینات کیا گیا۔ انہیں وہیں رہتے ہوئے گریڈ 22 ملا اور وہ چیف سیکرٹری بنا دیئے گئے۔ انہوں نے 31 اکتوبر 2019 کو چارج سنبھالا جس کے بعد سے لے کراب تک ایک سال گیارہ ماہ کے دوران انہوں نے اپنی ٹیم بنائی اور وزیر اعلیٰ سےملکر صوبہ چلا رہے ہیں۔ پاکستان کے کسی دوسرے صوبے میں انتظامی لحاظ سے کبھی ایسی غیر یقینی صورتحال دیکھنے میں نہیں آئی جیسی کہ پنجاب میں ایک مرتبہ پھر پیدا ہو رہی ہے۔ اتنے بڑے انتظامی عہدوں پر پانچویں مرتبہ تبدیلیوں کے امکانات ظاہر ہونے پر ہنسی آتی ہے۔

طاہر خورشید جسکے بارے میں یہ تعریف کی گئی کہ اس نے پنجاب کی تاریخ میں پہلی مرتبہ 560ارب کے سالانہ ترقیاتی پروگرام کو مقررہ وقت پر انتظامی سیکرٹریوں ، کمشنروں اور ڈپٹی کمشنروں سے منظور کروایا لیکن اسےبھی تبدیل کردیا گیا۔ کیا صرف سول سرونٹس خواہ وہ پاکستان ایڈمنسٹرٹیو سروس ہو یا پولیس سروس آف پاکستان ہو، سارے کے سارے ہی نااہل ہیں۔ ایک مرتبہ چوہیا کو بھی تبدیل کرکے دیکھ لیں تو ہوسکتا ہے ایسی تبدیلیوں کی بجائے حقیقی تبدیلی آجائے۔ اب ذرا اس خط کا ذکر بھی کرلیتے ہیں جو آل پاکستان پرونشل سول سروس ایسوسی ایشن کے کوآرڈینیٹر اور پرونشل مینجمنٹ سروس ایسوسی ایشن خیبر پختونخوا کے صدر فرحت اللہ مروت نے 27اگست 2021 کو وفاقی سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کے نام لکھا ہے۔ اتنا خوفناک خط شاید پاکستان کی تاریخ میں پہلے کبھی نہیں لکھا گیا جس میں سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ ڈویژن پر آئین سے انحراف کا الزام عائد کرتے ہوئے ان پر سنگین غداری کا مقدمہ درج کرانے کے حوالےسے وارننگ دی گئی ہے۔ صوبائی سول سروس خاص طورپر 18 ویں ترمیم کے بعد کچھ زیادہ ایکٹو نظرآ رہی ہے اور پنجاب میں تو ایک اچھا خاصا پریشر گروپ بن چکا ہے۔ اپنے حقوق کے لئے جو آئین اور قانون کے مطابق ہوں ، ہر ایک کو جدوجہد کرنے کا حق حاصل ہے لیکن سول سروسز خواہ وہ وفاقی ہو یا صوبائی، ایسی زبان استعمال کرنا بہرحال مناسب نہیں ۔ ہم اکثر چیزوں میں ہندوستان کی مثال دیتے ہیں تو انڈین سول سروس جو ان کی وفاقی سول سروس ہے کے افسران کو مختلف ریاستوں میں نہ صرف تعینات کیا جاتا ہے بلکہ وہ تو ریٹائرمنٹ تک انہیں ریاستوں میں جہاں وہ پہلے دن تعینات ہوتے تھے سروس کرتے ہیں۔

انڈین پولیس میں بھی ایسا ہی نظام رائج ہے جو گزشتہ 100 سال سےچل رہا ہے۔ فیڈرل سروس کایہ مطلب نہیں ہوتا کہ انہیں صوبوں سے نکال دیا جائے۔ کینیڈا، آسٹریلیا، سوئٹزر لینڈ، امریکہ اور دنیا کے تمام ایسے ممالک جہاں فیڈرل سیٹ اپ ہوتا ہے وفاقی سول سروس کے افسران صوبوں اورسٹیٹس میں تعینات کئے جاتے ہیں۔ انڈیا کا ماڈل اس حوالے سے بہت کلیئر ہے اور وہاں کبھی فیڈرل اور صوبائی سول سروس کا کوئی ایشو نہیں ہوا۔ 18ویں ترمیم کے بعد صوبوں کا دائرہ اختیار بڑھ گیا ہے۔ تعلیم، صحت اور امن عامہ بھی صوبائی کھاتے میں آگیا ہے۔ اصل میں وفاقی و صوبائی سول سروس کے کوٹے اور تناسب کے درمیان فائن بیلنس ہونا چاہیے۔ آل پاکستان پرونشل سروس ایسوسی ایشن نے اپنے خط میں ایڈمنسٹرٹیو فیڈرلزم کا لفظ استعمال کیا جو پہلے کبھی استعمال نہیں کہاگیا۔ بیلنس آف پاور کا مطلب اصل میں یہ ہوتا ہے کہ دونوں سروسز کو حصہ ملنا چاہیے۔ ایڈمنسٹرٹیو فیڈرلزم کی بات کریں تو پھر ضلعی اور تحصیل سطح پر لوکل سروسز بننی چاہئیں اور اگر ایسا ہو جائے تو پھر صوبائی سول سروس کی اجارہ داری بھی ختم ہو جائے گی۔ 18 ویں ترمیم کی اصل روح تو لوکل سطح پر سروسز کا قیام تھا جو بنائی نہیں گئیں۔ ڈی سنٹرلائزیشن کی بات کریں گے تو پھر صوبے کے ہر شہر کی لوکل ایڈمنسٹریشن ہوگی جس میں صوبائی سول سروسز کا بھی کوئی کردار نہیں ہوگا۔

وفاقی و صوبائی سول سروسز اگر مل کر کام نہیں کریں گی تو فیڈریشن کی فعالیت ختم ہو جائے گا۔ صوبائی عصبیت اور تعصب فروغ پائے گا۔ اگر تمام فیڈرل ایمپلائز صوبوں سے نکال دیں تو اس کا (LOGICAL END) یہی ہوگا کہ فیڈریشن کمزور ہو جائے گی اور تمام صوبے وفاق کے ساتھ چلنے سے انکار کردیں گے۔ وفاقی ملازمین کا صوبوں میں ہونا گارنٹی ہوتا ہے کہ وفاق اور صوبوں کا آپس میں تعلق برقرار ہے۔ صوبائی سول سروسز کی ایسوسی ایشن کی طرف سے لکھے گئے ایسے خوفناک خط سٹیٹ کو مضبوط کرنے کی بجائے کمزور کرسکتے ہیں۔ لہٰذا اپنا موقف منوانے اور حق کے حصول کے لئے مناسب رویہ اپنایا جائےتو بہتر ہوگا۔

تازہ ترین