آئی ایس آئی چیف کا دورہ کابل نہایت اہمیت کا حامل ہے، جس کے اثرات اور فوائد برائے افغانستان اور پاکستان مستقبل قریب میں سب کو نظر آئیں گے۔ بھارت کا اس دورے پر واویلا کرنا اس لئے سمجھ میں آتا ہے کہ کابل کا یہ دورہ پاکستان کے ایک اہم ادارے کے سربراہ اور اہم شخصیت کا ہے۔ ورنہ اس سے قبل اسی طرح کا دورہ امریکی خفیہ ادارے کے سربراہ نے بھی کیا اور کابل میں اہم طالبان رہنماؤں سے ملاقاتیں کیں۔خود بھارت کے اہم افراد نے گزشتہ دنوں قطر میں طالبان رہنماؤں سے ملاقاتیں کی ہیں تاہم آئی ایس آئی کے سربراہ کے دورہ کابل پر نہ صرف بھارتی حکومت بلکہ بھارتی میڈیا بھی اتاوالہ ہوا جاتا ہے۔ پاکستانی میڈیا نے نہ تو امریکی خفیہ ادارے کی اہم شخصیت اور نہ ہی بھارتی اہم افراد کی قطر میں ملاقاتوں پر تبصرے کئے نہ ہی ان ملاقاتوں کواتنا اجاگر کیا جتنا بھارتی میڈیا موجودہ دورہ کابل پر منفی تبصرے کررہا ہے۔
پاکستان میں امریکی اور بھارتی اہم افراد کی طالبان رہنماؤں سے ملاقاتیں صرف خبروں تک محدود رہیں۔ پاکستانی حکومتی ذمہ داران اور اپوزیشن رہنما صرف ایک دوسرے پر تابڑ توڑ حملوں اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے میں حسب سابق مصروف ہیں۔ طرفین کو اس خطے کی صورتحال اور پاکستان پرپڑنے والے اِس کے اثرات کا ادراک کرناچاہئے ۔یہ حکومت کا فرض ہے کہ اپوزیشن کو اس اہم صورتحال پر اعتماد میں لے۔ کیونکہ یہ ملکی معاملہ ہے اور مستقبل میں پاکستان پر اس کے اثرات یقینی طور پر پڑیں گے۔ بہرحال پاک آرمی اور آئی ایس آئی کے سربراہان ملک کے لئے جو کچھ کوششیں کررہے ہیں اور جو افغانستان میں امن کے قیام کے لئے کررہے ہیں وہ قابل ِتحسین ہیں۔ ویلڈن۔
اب کچھ پنجاب کے بارے میں۔ پنجاب میں انتظامی اور پولیس کے اعلیٰ افسران کی تبدیلیوں کے جھکڑ تھم نہیں سکے۔ بڑی عجیب بات ہے کہ پنجاب کے ذمہ دار تو پلس ہیں اور وزیر اعظم کے ہر دورہ لاہور پر وزیر اعلیٰ تحسین سمیٹتے ہیں لیکن انتظامی اور امن وامان کے معاملات پروہ شاباش کے مستحق قرار نہیں پائے بلکہ وزیر اعظم کا ہر دورہ لاہور، پنجاب کی بیوروکریسی اور آئی جی کی سرزنش اور تبدیلی پرمنتج ہوتا ہے۔ اب بھی حسبِ روایت ویسا ہی ہورہا ہے، پہلے کئی کمشنرز اور ڈپٹی کمشنرز تبدیل کئے گئے اور اب چیف سیکریٹری اور آئی جی پنجاب کو تبدیل کیا جارہا ہے۔ اعلیٰ افسران کی اتنی تبدیلیاں کسی سابق حکومت میں نہیں ہوئیں۔ یہ ریکارڈ صرف موجودہ دور میں قائم ہوا۔ معلوم نہیں یہ سلسلہ کب تک جاری رہے گا۔ کچھ دوستوں نے تین چار بار وزیراعلیٰ پنجاب کی تبدیلی کا مشورہ دیا لیکن اس پر عمل نہیں کیا گیا اس لئے دوستوں نے نتائج ان ہی پر چھوڑ دئیے ۔ واقفان حال کا کہنا ہے کہ پنجاب میں گورننس کی بہتری میں بڑی رکاوٹ پسند وناپسند کے فیصلے ہیں۔ حکومت چلانے اور بہتر انداز میں چلانے کا ایک طریقہ کار ہوتا ہے۔ کئی معاملات میں اپنی پسند کو نظر انداز کرنا پڑتا ہے اور کئی بار بعض قریبی افراد کو ناراض بھی کرنا پڑتا ہے کیونکہ منتظم اعلیٰ کو پورے عوام کو دیکھنا پڑتا ہے۔
جس حکمراں نے بھی عوام کی بہتری کی اس کو عوام کبھی نہیں بھولتے۔ گورننس تب بہتر ہوسکتی ہے جب اعلیٰ افسران اپنے دائرہ اختیار میں خودمختار ہوں۔ اور ان کے اچھے اقدامات کی نہ صرف تعریف کی جائے بلکہ ان کو مطلوبہ وسائل فراہم کئے جائیں پھر بھی اگر وہ کہیں کوتاہی غفلت یا اختیارات کے ناجائز استعمال کے مرتکب ہوجائیں توان سے سختی سے پوچھ گچھ کی جائے۔ سب جانتے ہیں کہ پنجاب میں بیوروکریسی اور پولیس کے اعلیٰ افسران کن مسائل کے شکار ہیں۔ بجائے ان کے مسائل کا ازالہ کرنے کے ان کو ناکام ثابت کرنے کے لئے تبدیل کرنا نہ تو انصاف ہے اور نہ ہی یہ صوبے میں گورننس اور امن وامان کی صورتحال بہتر بنانے میں معاون ثابت ہوسکتا ہے۔ ورنہ نہ بہتری حالات میں ہوگی اورتبدیلیوں کا میوزیکل چیئرز والا سلسلہ جاری رہے گا۔ بقول غالبؔ
رومیں ہے رخش عمر کہاں دیکھیے تھمے
نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پاہے رکاب میں
اب کچھ پنجاب کی سیاست پر نظر ڈالیں تو یہاں بھی عجیب اور بے یقینی کا ماحول ہے۔ مسلم لیگ(ن) جو پنجاب کی سب سے بڑی سیاسی قوت ہے۔ خود گومگو کا شکار ہے۔ عام کارکن تو کیا بعض رہنما بھی کشمکش سے دوچار ہیں۔ دوسری اور تیسری قطار کے رہنماؤں کو توبالکل علم ہی نہیں کہ اوپر کی سطح پرکیا چل رہا ہے۔ تحریک انصاف میں ترین فیکٹر کی خصوصی طور پر جنوبی پنجاب میں اہمیت برقرار ہے۔ تحریک انصاف سے عام آدمی ناراض ہے مہنگائی نے غریب کی زندگی اجیرن کررکھی ہے۔ پارٹی کے رہنما اس کا ملبہ سابق حکومتوں پرڈالنے میں کامیاب نہ ہوسکے ۔
تین سالہ دور اقتدار میں عوامی مشکلات میں کمی کے بجائے مسلسل اضافہ،چینی اور آٹا مافیا، ادویات کی قیمتوں میں ناقابل برداشت اضافہ، مہنگائی کا نہ رکنے والا طوفان، بدامنی حتیٰ کہ رشوت کے نرخوں میں اضافہ اور وہی جنگل کا قانون کہ جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا جاری رہنا یہ وہ تمام اسباب وعوامل ہیں کہ موجودہ حکومت کے ذمہ داران بھی عوامی سوالات کے آگے لاجواب ہیں۔ اس صورتحال میں بلاول بھٹو کے جنوبی پنجاب میں’’ظہور‘‘ سے نہ تو مسلم لیگ(ن) اور پی ٹی آئی کو کوئی فرق پڑسکتا ہے اور نہ ہی پیپلز پارٹی کو عروج مل سکتا ہے۔ کیونکہ یہ سارا نظام ہی فلاپ ہوچکا ہے۔ موجودہ نظام میں اب کوئی سیاسی جماعت بہتری لانے کی پوزیشن میں نہیں ہے بلکہ یہ جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ جاننے والے جانتے ہیں کہ اب اس نظام کو تبدیل کرنا ملک وقوم کے لئے ناگریز ہے اور جلد یا بدیر یہ ’’تبدیلی‘‘ آنیوالی ہے اور وہی حقیقی تبدیلی ہوگی۔