• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

افغانستان میں کئی مہینوں کی اکھاڑ پچھاڑ کے بعد اب دھول بیٹھنے کا وقت آگیا ہے اور کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد معالات واضح ہونے لگے ہیں۔ دوحہ میں طالبان کے سیاسی دفتر کے ترجمان محمد نعیم نے قطری نشریاتی ادارے الجزیرہ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ افغانستان میں جنگ ختم ہوگئی، ملک میں نئے نظامِ حکومت کی شکل جلد واضح ہوجائے گی۔ انہوں نے کہا کہ طالبان کو 20سال کی جدوجہداور قربانیوں کا پھل مل گیا،اُنہوں نے مزید کہا کہ اپنے ملک اور لوگوں کی آزادی کا مقصد حاصل کر چکے۔ تمام افغان رہنمائوں سے بات چیت کیلئے تیار ہیں اور ان کے تحفظ کی ضمانت دیتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ عالمی برادری سے پرامن تعلقات چاہتے ہیں۔تمام ممالک اور قوتوں سے کہتے ہیں کہ وہ کسی بھی مسئلے کو حل کرنے کیلئے ہمارے ساتھ بیٹھیں۔

صدارتی محل اب طالبا ن کے قبضے میں ہے اور وہ عبوری حکومت بنانے کی تیاری بھی جاری ہے۔صدارتی محل میں حکومت کی تشکیل سے متعلق ہونے والے مذاکرات میں ڈاکٹر عبدﷲ عبدﷲ نے ثالت کا کردار ادا کیا جو قبل ازیں اشرف غنی کے ساتھ حکومت میں شامل تھے اور افغانستان کی اعلیٰ مصالحتی کونسل کے سربراہ تھے۔یہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ افغانستان میں امن و امان کے قیام کیلئے پاکستان نے نہ صرف خود بھر پور کوشش کی بلکہ بین الاقوامی کمیونٹی کو بھی اس سلسلے میں متحرک کیا اور امریکا اور افغان حکومت کے طالبان کے ساتھ رابطوں اور مذاکرات میں بھی پیش پیش رہا۔امریکہ کی طرف سے افغان فوج کی تربیت اور جد یداسلحہ کی فراہمی پر ایک سو ارب ڈالر سے زائد خرچ کئے گئے۔ تین لاکھ نیشنل گارڈز کیل کا نٹے سے لیس کئے گئے جو اب کہیں نظر نہیں آتے۔ جنہوں نے جغرافیائی سر حدوں کا تحفظ کرنا تھا وہ ہوا کی تپش دیکھ کر ملک سے ہی فرار ہو گئے بہت سے طالبان کے ساتھ مل گئے۔افغان حکومت صرف امریکہ اور نیٹوکی بیساکھیوں پر کھڑی تھی۔ یہ ہٹگئیں تو حکومت مہینہ بھر بھی نہ نکال سکی۔اشرف غنی نے ایک بیان میں کہا کہ افغانستان سے جانے کا فیصلہ انہوں نے خونریزی روکنے کیلئے کیا۔ اب یہ وہی سمجھا سکتے ہیں کہ ان کے جانے سے خونریزی کیسے رُک سکتی تھی؟ خیر ، کابل میں طالبان کی آمد پر صورتحال یہ تھی کہ ہزاروں شہریوں نے ان کے قافلے کا استقبال کیا۔ اس سے یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ مغربی میڈیا اور مغربی حکومتوں کے زیر اثر کئی دیگر ممالک کے ذرائع ابلاغ نے طالبان اور افغان عوام کے درمیان کدورت کا جو پر و پیگنڈا شروع کر رکھا ہے، وہ مبنی بر حقیقت نہیں۔ ایک اور اہم با ت یہ کہ طالبان نے کابل پر اپنا قبضہ ہوتے ہی عام معافی کا اعلان کر دیا۔

امید ہے غیر ملکی قوتیں افغانستان میں اپنا ناکا م تجربہ نہیں دہرائیںگی۔افغانستان کی تیزی سے بدلتی ہوئی صورتحال کے پیشِ نظر دنیاکو طالبان کے بارے اپنی سوچ بدلنا ہوگی ،بیس سال امریکہ اور اس کے اتحادی جن لوگوں کو دباتے رہے،پابندی لگاتے رہے، قید میں رکھا ، بد ترین ذہنی و جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا انہوں نے بیس سال بعد بالکل وہیں سے اپنے سفر کا آغاز کیا ہے جہاں اُن کا راستہ روکا گیا تھا۔ طالبان نے گزشتہ 20 برس میں نہ صرف دنیا کے تمام اندازوں کو غلط ثابت کیا ہے بلکہ انہوں نے ماضی سے بہت کچھ سیکھا بھی ہے۔ یہ طالبان ماضی سے مکمل طور پرمختلف ہیں، یہ نئی سیاسی و معاشی طاقت کے طور پر سامنے آئیں گے۔ طالبان کی موجود ہ قیادت افغانستان میں تعمیر و ترقی کے منصوبوں پر کا م کرنے کا عزم رکھتی ہےاورخطے میں پائیدار امن کیلئے ہمسایہ ممالک کے ساتھ مل کر کام کر نے کی خواہاں ہے۔ کابل میں داخلے پر طالبان کی طرف سے عام معافی کا اعلان یہ ثابت کرتا ہے کہبلکہ ملک میں مزید جنگ نہیں چاہتے وہ امن و امان اور تعمیر و ترقی کے منصوبوں کو آگے بڑھانا چاہتے ہیں۔

اب افغانستان کے سیاسی مستقبل کے بارے میں فیصلہ کرنے کیلئے عبدﷲ عبدﷲ کی سربراہی میں ایک افغان وفد قطر روانہ ہوگا جو قطری دارالحکومت دوحہ میں طالبان رہنمائوں سے ملاقات کرے گا ۔طالبان رہنماعبدالقیوم ذاکر نے بھی افغان صدارتی محل میں ایک غیر ملکی ٹیلی ویژن چینل سے بات کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان کے مستقبل کا فیصلہ مشاورت سے کریں گے۔ ملا عبد الغنی برادر کا قطر سے افغانستان پہنچے پر استقبال کیاگیا۔ ملا برادر نے کابل کی فتح پر اپنے بیان میں کہا ہے کہ افغانستان کی پوری مسلم ملت بالخصوص کابل کے شہریوں کو فتح پر مبارکباد پیش کرتے ہیں۔ ﷲ کی مدد و نصرت سے کامیابی حاصل ہوئی ۔ ﷲ کا ہر وقت عاجزی کے ساتھ شکر ادا کر تے ہیں۔ کسی غرور اور تکبر میں مبتلا نہیں ۔طالبان کے امیر ملا ہیبت ﷲ اور ان کے معاونین بھی تاحال کابل نہیں پہنچے۔ اطلاعات کے مطابق، وہ سیکورٹی انتظامات کے بعد کابل آئیں گے۔افغانستان میں عبوری حکومت کے قیام تک انتظامی معاملات چلانے کیلئے ایک رابطہ کونسل بنا دی گئی ہے جس میں ڈاکٹر عبدﷲ عبدﷲ ، حامد کرزئی اور گلبدین حکمت یار شامل ہیں کیونکہ امریکی اور اتحادی افواج کی وجہ سے افغان عوام گزشتہ دو دہائیوں سے مسلسل حالت جنگ میں رہے ہیں اور اگر اب بھی انہیں امن و سکون نصیب نہیں ہوتا تو پھر غیر ملکی افواج کا افغانستان سے انخلا کا ہونا نہ ہونا ایک برابر ہے۔

تازہ ترین