• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تحریک انصاف کی حکومت نے ایک مربوط منصوبے کے تحت آزادی صحافت، انسانی حقوق کی تنظیموں اور قانون کی بالادستی کی جدوجہد کرنے والے اداروں کو کمزور کرنے کی سعی کا آغاز کر لیا۔تاریخ شاہد ہے کہ جمہوری کلچر اور آزادی رائے کے فروغ سے ہی معاشرے کی تخلیقی قدریں ابھرتی ہیںجو نئے بیانیے کا موجب بنتی ہیں۔ امریکہ میں آج بھی نوم چومسکی اور دیگر بہت سے دانشور عرصہ دراز سے امریکی حکومت اور اداروں پر شدید تنقید کرتے ہیں لیکن ان دانشوروں کو امریکی اداروں نے اُنہیں کبھی کچھ نہیں کہا، پاکستان میں البتہ آزادیٔ صحافت کو سلب کرنے کی کاوشیں بہت پرانی ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ سابق فاٹا کے ایک ایم این اے دس مہینے سے اپنی ضمانت کا انتظار کر رہے ہیں لیکن اس کھلم کھلا زیادتی پر حکو مت کے کان پر جوں تک نہیں رینگ رہی۔پاکستان کی سیاست کے اس اہم موڑ پر تحریک انصاف سے جتنی سیاسی بصیرت، مدبری اور اعتدال پسندی متوقع تھی، وہ اتنی ہی تیزی کے ساتھ سیاسی اداروں اور سیاسی کلچر کو انحطاط کی بھینٹ چڑھارہی ہے۔

آج اکیسویں صدی میں ہر مہذب ملک میں اظہار خیال اور صحافت کی آزادی شہریوں کے بنیادی حقوق میں شمار کی جاتی ہے۔ پاکستان کی 74سالہ تاریخ میں ہر حکومت نے مسلسل ان حقوق کو سلب کرنے کی کوشش کی۔ ایوب خان نے پریس اینڈ پبلیکشنز آرڈیننس نامی سیاہ قانون نافذ کیا۔ پروگریسیو پیپرز لمیٹڈز کو انکے مالکان سے چھین لیا، نیشنل پریس ٹرسٹ قائم کیا اور اسکی جگہ زرد صحافت، گٹر پریس، چمچہ گیری اور بلیک میلنگ کی روایات کو عروج بخشا۔ رہی سہی کسر یحییٰ خان کے وزیر اطلاعات شیر علی نے پوری کر دی۔ ضیاا لحق نے نہ صرف صحافیوں کو قید و بند کا شکار بنایا بلکہ ان کو سر عام کوڑے بھی مارے گئے جن میں موجودہ پی ایف یو جے کے جنرل سیکرٹری ناصر زیدی بھی شامل تھے جن کی ذات اب خودایک ادارے کی حیثیت رکھتی ہے اور جن کی گزشتہ دنوں تحریک انصاف کے وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے ایک پارلیمانی میٹنگ میں کافی تضحیک بھی کی۔ اس طرح کی تضحیک کے باوجود صحافیوں کے اداروں نے نہ صرف ہر دور میں آزادی صحافت کا پرچم بلند رکھا بلکہ قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں۔اس کے برعکس تحریک انصاف کی حکومت مصنوعی صحافیوں کے ٹولوں کی ہمت افزائی کر رہی ہے جبکہ پاکستانی صحافتی تاریخ شاہد ہے کہ جعلی نمائندوں کے ذریعے میڈیا کے مسائل حل نہیں ہو سکتے۔ حکومت کو چاہئے کہ میڈیا کے حقیقی نمائندوں کے ساتھ مذاکرات کرے، جنہوں نے مذاکرات اور مفاہمت کا راستہ کبھی بند نہیں کیا۔اس کے ساتھ ساتھ تحریک انصاف کے وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے ایک دفعہ پھر پاکستان میڈیا ڈیویلپمنٹ اتھارٹی کے قیام کے بل کے مسودے کو نافذ کرنے کا بیڑا اٹھا لیا ہے جس کو پہلے ہی حزب اختلاف کی جماعتوں،صحافیوں، وکلاء اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے سیاہ قانون اور میڈیا پر مارشل لا قرار دیا ہے۔ اس سے پہلے بھی ایک ایسا ہی مسودہ مسلم لیگ ن کی حکومت کے ایک جوائنٹ سیکرٹری نے خاموشی سے پیش کرنے کی کوشش کی تھی اور اب ویسا ہی ایک مسودہ تحریک انصاف کو تھمادیا گیا ہے جس کے نفاذ کی خاطر فواد چوہدری نے شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار کاکردار ادا کرنے کا تہیہ کر لیا ہے۔

پاکستان میں آئین کی حکمرانی کے سیاسی کلچر کو فروغ دینے میں پاکستان کی بار کونسلوں نے ہمیشہ سے ایک تاریخی کردار ادا کیا ہے۔ان اداروں کے ہر سال باقاعدگی سے الیکشنز ہوتے ہیں جس سے ان کی روایتیں سماج میں بہت گہری ہو چکی ہیں۔ حال ہی میں بار کونسلوں کے منتخب نمائندگان نے ججوں کی تقرری میں بے قاعدگی کے خلاف جدوجہد کا آغاز کیا ہے۔ لیکن افسوس کامقام ہے کہ سپریم کورٹ بار کے صدر لطیف آفریدی نے کہا ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت کے ایک وزیر مختلف بار ایسو سی ایشنز کی مالی معاونت کی آڑ میں مختلف ججوں کے خلاف اپنی مرضی کے مطابق قراردادیں پاس کروانا چاہتے ہیں۔اسی طرح حال ہی میں سپریم کورٹ بار ایسو سی ایشن کے جنرل سیکرٹری کی قیادت میں ایک وفد کی فواد چوہدری کی ایماپر وزیر اعظم سے ملاقا ت کروائی گئی اور اِس ملاقات کا علم بار کے صدر لطیف آفریدی کوبھی نہ تھا۔ اسی طرح پچھلے دنوں الیکشن کمیشن کے خلاف بھی تحریک انصاف نے کھلم کھلا الزامات کی بوچھاڑ کر دی کیونکہ الیکشن کمیشن نے الیکٹرونک مشینوں کے تحت اگلے الیکشن کرانے کی مخالفت کی تھی۔ عمران خان کے وعدے کے باوجود طلبایونینز کو آج تک بحال نہیں کیا گیا جو کہ دراصل جمہوریت کے ارتقاکا ابتدائی ادارہ ہوتا ہے۔ اسی طرح سولہ ہزار خاندانوں کے بے روزگار ہونے پر بھی کوئی توجہ نہیں دی جا رہی اور نہ ہی ایک جامع لیبر پالیسی کا دور دور تک امکان نظر آ رہا ہے۔

مغرب میں جمہوریت کا عمیق مطالعہ کرنے سے پتا چلتا ہے کہ وہاں صرف بالغ رائے دہی کے عمل نے ہی جدید جمہوریت کا روپ نہیں ڈھالا بلکہ یہ ایک ایسا عمل ہے جس میں سماجی کلچر بھی مسلسل جمہوری اداروں کوایک نہج تک پہنچانے میں مدد کرتا ہے۔ اس لیے پاکستان جیسے ملک میں جمہوریت کی آبیاری کیلئے میڈیا، بار ایسوسی ایشنز، مزدوروں اور طلبا کی یونینز، اقلیتی تنظیمیں، عورتوں کے حقوق کی تنظیمیں اور سول سوسائٹی مل کر انتظامیہ، مقننہ اور عدلیہ کو آئین کی پاسداری اور اس سلسلے میں سماج میں اٹھانے والی تحریکوں کے ذریعے آئین کی پاسداری کروانے کی کوشش کرتی رہتی ہیں۔تحریک انصاف کی موجودہ حکومت جو کہ 2018کے متنازعہ الیکشنز کی بدولت وجود میں آئی تھی،نےایک منظم منصوبے کے ذریعے سیاسی کلچر کی آبیاری کرنے والے اداروں کو بھی زیر نگوں کرنے کیلئے پورے زور و شور سے کمر باندھ لی ہے جس سے پاکستان میں جمہوریت کے مزید مخدوش ہونے کاخطرہ ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین