ساجدہ ظہیر
ایک تھی چڑیا اور ایک تھی چوہیا، دونوں نے کیا آپس میں پہناپا۔ ایک دن چڑیا چوہیا سے بولی، ’’چلو بہن آج ذرا جنگل کی سیر کر آئیں‘‘۔ چوہیا نے کہا ’’اچھا بہن چلو، چلتے ہیں سیر کو‘‘۔ چوہیا تو زمین پرچلی جب کہ چڑیا ہوا میں اڑتے ہوئے اس کے ساتھ چلنے لگی۔ جس راستے پر چوہیا جارہی تھی ، وہاں سے ایک ہاتھی آرہا تھا۔ چوہیا اس کے بھاری بھر کم پاؤں کے نیچے دب گئی۔ بے چاری چڑیا یہ منظر دیکھ کر رونے لگی۔ لیکن جیسے ہی ہاتھی نے اپنا پاؤں آگے قدم بڑھانے کے لیے اٹھایاتو سخت جان چوہیا اچھل کر بھاگی ۔
اس نے جب چڑیا کو روتے دیکھا تو اس سے پوچھا، ’’چڑیا بہن تو کیوں رو رہی ہے‘‘۔ چڑیا نے سسکیاں لیتے ہوئے جواب دیا’’چوہیا بہن، ہاتھی کے پاؤں کے نیچے دبنے اور تیرےمرنے کے صدمے کی وجہ سے رورہی تھی‘‘۔ چوہیا بولی، ’’مرے میرے دشمن ، مجھے تو ہاتھی سے ذرا پاؤں دبوانے تھے، اس لیے اس کے پیر کے نیچے لیٹی تھی‘‘۔ چڑیا یہ سن کر خاموش رہی۔ راستے میں دریا آیا، چڑیا تو اڑتے ہوئے دریا پار کرگئی جب کہ چوہیا دریا میں گر کر غوطے کھانے لگی اور بہت مشکل سے دوسرے کنارے پر پہنچی۔جب کافی دیر تک چوہیا دوسرے کنارے پر نہیں آئی تو چڑیا سمجھی کہ وہ پانی میں ڈوب کر مر گئی ہے، اس لیے وہ پھر رونے لگی۔
چوہیا جب دریا پار کرکے چڑیا کے پاس پہنچی تو اسے روتے دیکھ کر پوچھا، ’’چڑیا بہن ، اب کیا بات ہوئی جو رو رہی ہو‘‘۔ چڑیا نے روتے ہوئے جواب دیا،’’میں سمجھی تھی کہ میری بہن پانی میں ڈوب کر مر گئی ہے‘‘۔ چوہیا اس کی بات سن کرہنستے ہوئے بولی، ’’ارے پگلی، میں تو ذرا دریا میں نہانے کے لیے بیٹھ گئی تھی‘‘۔
دونوں منہ بولی بہنیں وہاں سے آگے کی طرف بڑھیں تو راستے میں کانٹے دار جھاڑیوں کا جنگل آیا، چڑیا تو اڑ کر وہاں سے نکل گئی لیکن چوہیا کانٹوں میں پھنسنے کی وجہ سے لہولہان ہوگئی۔ چڑیا نے جب چوہیا کےچہرے سے خون بہتے دیکھا تو وہ پھر رونے لگی۔چوہیا نے اسے تسلی دیتے ہوئے کہا، ’’رو مت بہن، میں نے تو وہاں ناک کان چھدوائے ہیں، اس لیے ذرا سا خون نکل آیا ہے‘‘۔
یہ سن کر چڑیا غصے سے بولی، ’’تو بڑی بہانے بازہے، دکھ سہتی ہے اور مجھے تسلی دینے کے لیے بہانے بناتی ہے‘‘۔ چوہیا نے جواب دیا، چڑیا بہن، اپنے دکھ تکلیف پر واویلا کرنے سے کیا ملے گا، میں تیرا یا تو میرا دکھ تو ختم نہیں کرسکے گی، صبر کرتی ہوں تو مجھ میں تکلیف برداشت کرنے کا حوصلہ پیدا ہوتاہے‘‘۔