• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزشتہ دو کالموں میں جس شخصیت کا تذکرہ ہوا اُس سے متعلق لوگوں کی تشنگی بڑھی مگر عرض کیا تھا کہ پہلے کام پھر نام بتائوں گا۔

سی ایس ایس تک پہنچنے سے پہلے اسے شدید بیماری سے گزرنا پڑا، وہ اپنے پروفیسر کے ساتھ مل کر ٹی بی پر ریسرچ کر رہا تھا کہ اسے خود ٹی بی ہو گئی، وہ بستر پر پڑا تھا تو ایک عورت نے اس کے والدین سے کہا ’’آپ کا ذہین اور خوبصورت بچہ مر رہا ہے‘‘۔ 

آواز کان میں پڑی تو کہنے لگا ’’محترمہ! کسی بیمار سے متعلق ایسے نہیں کہتے، میں مروں گا نہیں، ان شاء اللّٰہ زندہ رہوں گا‘‘۔ اس نے دعا کی کہ اے خدا مجھے اس حالت میں موت نہ دینا بلکہ امام حسینؓ کی طرح شہادت دینا۔

 وہ ٹھیک ہو گیا، سی ایس ایس کر کے وزارتِ خارجہ میں گیا تو ایک صاحب اور صاحبہ نے اُسے محض ڈومیسائل کی وجہ سے قبول نہ کیا، ساتھ ہی تبصرہ فرمایا کہ یہ کسی بڑے ادارے کا پڑھا ہوا نہیں۔ 

وہ بجٹ سیکشن میں چلا گیا، اس نے سیکرٹری خارجہ انعام الحق کو بےحد متاثر کیا اور اپنا سفر جاری رکھا۔ اسے وہ گائوں یاد آیا جہاں غربت کے آنگن میں آنکھ کھولی تھی، اس نے گائوں میں اسکول قائم کیا، غریب ذہین بچوں کیلئے 30فیصد کوٹہ مقرر کیا تاکہ کوئی غربت میں جنم لینے والا بچہ تعلیم سے محروم نہ رہ جائے۔ 

ایک کلینک بنایا کہ غریب کا علاج بھی ہو سکے، اب وہ گائوں میں ووکیشنل کالج بنوا رہا ہے، لوگوں کی خدمت کیلئے وہ سیاست کرنا چاہتا تھامگر غربت سفارت کاری کی طرف لے آئی۔

شاید یہ ہمارا اکلوتا سفارت کار ہے جو اپنے بچوں کے لئے نہ کسی ملک کی شہریت چاہتا ہے اور نہ ہی کسی دوسرے ملک سے کوئی ذاتی فائدہ۔ جہاں جاتا ہے صرف پاکستان اور پاکستانیوں کا سوچتا ہے، اسے کبھی ڈھنگ کی پوسٹنگ نہیں دی گئی بلکہ جہاں کوئی نہیں جاتا، اسے بھیج دیا جاتا ہے۔ 

وہ جہاں بھی گیا مشکلات اس کی منتظر تھیں، کبھی اسے عراق بھیج دیا گیا تو کبھی یمن مگر اس نے ہمیشہ پاکستان کیلئے کام کیا۔ وہ جدہ میں قونصل جنرل نہیں بلکہ پاسپورٹ انچارج تھا، اس نے جدہ میں بڑا اسکینڈل پکڑا، پاکستانی قونصل خانے سے غیرملکیوں کو پاکستانی پاسپورٹ بیچے جاتے تھے، بڑے خریداروں میں افغانی اور برمی تھے، اس نے اسٹینڈ لیا، جونیئر افسر ہوتے ہوئے اپنے سینئر کے خلاف انکوائری کروائی اور یہ سلسلہ رکوایا، کیریئر کو دائو پر لگا کر یہ کام کیا۔ 

اکتوبر 2005میں زلزلہ آیا تو اسے فکر لاحق ہوئی، وہ دن بھر ڈیوٹی دیتا اور شام کو زلزلہ زدگان کے لئے امدادی اشیاء اور چندہ اکٹھا کرتا۔ 

خدمات کے صلے میں جب اعزازات کے لئے فارم بھرے جا رہے تھے تو اس نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ ’’یہ خدمات تو میں نے اپنے ہم وطنوں کے لئے انجام دی ہیں، اس لئے نہیں کہ تمغے ملیں بلکہ اپنے لوگوں کی خدمت کرنا مجھ پر فرض ہے‘‘۔

جدہ سے ٹرانسفر ہواتو پاکستانیوں نے محبت دکھائی، اس کے لئے 72تقریبات منعقد کی گئیں پھر یمن میں پوسٹنگ کر دی گئی، وہ یمن میں صرف پانچ مہینے قائم مقام سفیر رہا، اس نے پاکستان انٹرنیشنل اسکول کو بہترین بنایا اور پاکستان کی برآمدات کو ڈبل کر دیا، اس طرح وہ وزارتِ خارجہ کا پہلا افسر بنا، جن کو منسٹری آف کامرس نے آئوٹ اسٹینڈنگ پرفارمنس ایوارڈ دیا۔

 یمن میں ایک سیاسی سفیر آ گیا، اسے آتے ہی یہ فکرمندی ہوئی کہ ڈپٹی ایمبیسڈر بہت مقبول ہے۔ یمن میں ایک سعودی اسپتال میں پاکستانی ڈاکٹروں اور نرسوں کی تنخواہیں روکی گئیں تو یہ مردِ مجاہد کھڑا ہو گیا اور ہم وطنوں کی تنخواہیں نکلوانے میں کامیاب رہا۔ 

اس پر سیاسی سفیر نے وزیراعظم گیلانی کو خط لکھا کہ ’’ہمارے ڈپٹی ایمبیسڈر نے امریکہ کے خلاف "DEATH OF AMERICAN EMPIRE"نامی کتاب لکھی ہے‘‘، واضح رہے کہ یہ کتاب 2008میں لکھی گئی تھی۔ 

خیر سیاسی سفیر کے کہنے پر اسے نائیجیریا ٹرانسفر کر دیا گیا، وہاں پہلے ہی سال ایکسپورٹ ڈبل ہو گئی تو منسٹری آف کامرس نے دوبارہ آئوٹ اسٹینڈنگ پرفارمنس ایوارڈ دیا۔ اتنا کام کیا کہ گیارہ سو بزنس مینوں کو پاکستان بھجوایا، وفود کا تبادلہ ہوا، نائیجیریا کے صدر نے پاکستان کا دورہ کیا، پاکستان کا دورہ کرنے والے نائیجیریا کے یہ دوسرے صدر تھے۔ 

نائیجیریا میں ایک نان کیریئر ڈپلومیٹ خائف ہوا تو الزامات کے ساتھ شکایت کر دی، اسے ہٹا دیا گیا، بحال ہوا تو نائیجیریا سے جڑے ہوئے افریقی ملک نائیجر بھیج دیا گیا، ایک سال میں وہاں سے بھارتی لابی کا صفایا کیا، پاکستان کی برآمدات کو ایک ملین سے 26ملین ڈالرز تک پہنچایا۔ 

جب موجودہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اس مجاہد کو دیکھا تو پہلے بہت تلملائے مگر پھر کارکردگی دیکھ کر اتنے معترف ہوئے کہ سیکرٹری خارجہ سے کہنے لگے ’’مجھے اس طرح کے سفیر چاہئیں جو بظاہر درویش دکھائی دیں مگر ان کی کارکردگی شاندار ہو‘‘۔ 

پھر سیکرٹری خارجہ نے کہا ’’یہ ہمارے زبردست اور شاندار سفیر ہیں‘‘، اس آدمی کا نام احمد علی سروہی ہے، جوآج کل نائیجر میں پاکستان کا سفیر ہے، اس کی وجہ سے نائیجر کی پارلیمنٹ کے صدر اور دو اہم وزراء پاکستان کا دورہ کر چکے ہیں۔

سولہ ستمبر کو وزارتِ تجارت یا کسی بھی وزارت کے تعاون کے بغیر پاک نائیجر ٹریڈ کانفرنس ہو رہی ہے جس کا افتتاح نائیجر کے صدر اور اختتام وہاں کے وزیراعظم کریں گے۔ 

احمد علی سروہی اقتصادی سفارت کاری کے ماہر ہیں مگر انہیں کسی بڑے ملک میں تعینات نہیں کیا جاتا۔ اکنامک ڈپلومیسی پر ان کی کتاب باقی سفیروں کے لئے مشعلِ راہ ہے۔ بقول فیضؔ؎

ہم خستہ تنوں سے محتسبو

کیا مال منال کا پوچھتے ہو

جو عمر سے ہم نے بھر پایا

سب سامنے لائے دیتے ہیں

دامن میں ہے مشت خاکِ جگر

ساغر میں ہے خون حسرت مے

لو ہم نے دامن جھاڑ دیا

لو جام الٹائے دیتے ہیں

تازہ ترین