محکمہ پولیس کی ذمے داری، جرائم کا خاتمہ اور امن و امان کا قیام ہے، لیکن اگر باڑ ہی کھیت کو کھانے لگ جائے تو پھر کھیت کا کیا بنے گا۔ کچھ یہی صورت حال سندھ میں محکمہ پولیس کی بھی سامنے آرہی ہے اور حال یہ ہے کہ محکمہ پولیس میں شامل بعض کالی بھیڑوں کی وجہ سے پُورے محکمہ کی کارکردگی مشکوک ہورہی ہے۔
اسی طرح کی صورت حال اس وقت سامنے آئی ہے، جب ایس ایس پی ضلع شہید بینظیر آباد امیر سعود مگسی کے مطابق پولیس افسران کے خلاف مسلسل شکایات کے پیش نظر خفیہ انکوائری کرائی گئی ہے، تو بقول ان کے معلوم ہوا کہ جرائم پیشہ افراد اور منشیات فروشوں کی سرپرستی میں بعض پولیس اہل کار بھی شامل ہیں۔ انہوں نے جنگ کو بتایا کہ ضلع کے مختلف تھانوں پر تعنیات ہیڈ محرر کے علاوہ کانسٹیبل اور ہیڈ کانسٹیبل جن کی تعداد 19 تھی، ضلع میں نشہ
آور گٹکا ، مین پوری اور زیڈ ایکس کے علاوہ منشیات فروشوں کی سرپرستی اور بھتہ وصولی میں ملوث پائے گئے تھے اور ان کے خلاف رپورٹوں کی روشنی میں انہیں فوری طور پر معطل کرکے محکمہ جاتی کارروائی شروع کردی گئی ہے۔ ایس ایس پی امیر سعود مگسی نے بتایا کہ ضلع میں انیس پولیس اہل کاروں کی معطلی کے بعد اس سے اوپر گریڈ کے افسران کے خلاف بھی خفیہ کارروائی عمل میں لائی گئی ہے اور اے ایس پی ظفر صدیق کی سربراہی میں کی گئی تحقیقات کی روشنی میں دیگر پولیس اہل کار بھی اس کی لپیٹ میں آئیں گے۔
ایس ایس پی کا کہنا تھا کہ دو ماہ قبل تعنیاتی کے دوران انہیں معلوم ہوا ہے کہ ضلع کے مختلف تھانون پر برسوں سے تعنیات پولیس افسران نے تھانوں کی حدود کو اپنی جاگیر سمجھ لیا تھا اور وہ سیاہ و سفید کے مالک بنے ہوئے تھے اور اس کی وجہ سے ان کے ماہانہ بھتے لاکھوں روپے تک جاپہنتے تھے۔ اس سلسلے میں یہ امر بھی دل چسپی کا باعث ہے کہ منشیات کے خلاف عالمی دن کے موقع پر ایس ایس پی امیر رسعود مگسی ن پولیس افسران کو حکم دیا کہ وہ کینسر کا مرض پھیلانے والے نشہ آور گٹکا، مین پوری اور زیڈ ایکس، آئس ، ہیروئین ، چرس فروشی کے خلاف ریلی نکالیں اور بینرز پر منشیات فروشوں پر لعنت کے بینرز بنانے کی ہدایت کی ۔
تاہم جب ریلی کی تصاویر اور وڈیوز موصول ہوئیں تو ان پر گٹکا ، مین پوری اور زیڈ اکیس کے بہ جائے صرف منشیات کے لفظ پر تعجب ہوا کہ پولیس افسران نے منشیات والی چیزوں کے نام بینرز پر نہیں لکھے۔ایس ایس پی نے بتایا کہ جب اس کی تحقیقات کی گئی تو یہ عقدہ کھلا کہ چوں کہ بعض پولیس اہل کار ان منشیات فروشوں سے مبینہ طور پر بھتہ وصولی میں ملوث ہیں۔ اس لیے بینرز پر جان بوجھ کر گٹکا ، مین پوری کے الفاظ اور کینسر زدہ افراد کی تصاویر لگانے سے اعتراض برتا گیا۔ ایس ایس پی کے مطابق اس نقطہ پر ان کا ماتھا ٹھنکا ا ور انہوں نے پولیس افسران کی خفیہ طریقے سے انکوائری کرائی، جس کے نتیجے میں انیس پولیس افسران سامنے آئے، جو کہ منشیات فروشوں کی سرپرستی میں ملوث پائے گئے تھے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ نشہ آور گٹا، مین پوری اور زیڈ ایکس نے پوری نوجوان نسل کو کینسر کی اتھاہ گہرائی میں دھکیل دیا ہے اور یہ ایسا نشہ ہے، جس سے چھٹکارے کی اس کے سوا کوئی راہ نہیں کہ اب نشہ آور اشیاء کو بیچنے والوں کے علاوہ استعمال کرنے والوں کے خلاف بھی قانون بنائے جائیں، تاکہ سزا کے خوف سے نوجوان بچے ،بچیاں ،جوان اور بزرگ اس نشے سے بچ سکیں۔ اس سلسلے میں ایس ایس پی امیر سعود مگسی نے بتایا کہ یہ بات دُرست ہے کہ گٹا، مین پوری اور زیڈ ایکس وغیرہ کے مکمل خاتمے کی صورت اب تک نہیں بنی ہے اور روزانہ کروڑوں روپے مالیت کا یہ زہر استعمال کیا جارہا ہے، جب کہ اب تو گاؤں ،دیہاتوں اور شہروں کے علاوہ یونی ورسٹیز ، کالجز میں بھی یہ وَبا پھیل چکی ہے ۔
ایک ہفتے کے دوران ریکارڈ مقدار میں گٹا، مین پوری اور زیڈ ایکس برآمد کی گئی ہے اور ان کے اسمگلروں کے خلاف مقدمات قائم کیے گئے ہیں۔ قاضی احمد پولیس تھانے کی حدود میں سوات سے آنے والے ٹرک پر چھاپے کے دوران تلاشی پر زیڈ ایکس کے پچاس پیکٹ ، گٹکا بنانے کے سامان سے لدے 140بیگ، چار ہزار دو سو کلو مین پوری ، سفید پاؤڈر کے 130 پیکٹ برآمد کیے گئے اور تین ملزمان کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا ۔ انہوں نے بتایا کہ اس ٹرک سے برآمد ہونے والے نشہ آور کیمیکل کی مالیت لاکھوں روپے ہے۔
ادھر ایک جانب پولیس کا دعویٰ ہے کہ اس نے گٹکا، مین پوری ، آئس اور نشہ آور ماوہ کے خاتمے کے لیے بھرپور کوششیں کی ہیں، لیکن اس دعوے کے برعکس شہر میں جابجا کچرے کے ساتھ بکھرے ہوئے زیڈ ایکس کے ساشے پولیس کے دعوے کا منہ چڑاتے نظر آتے ہیں، صورت حال یہ ہے کہ پان کے کیبن ،میڈیکل اسٹور ، کریانے کی دوکانیں اور جنرل اسٹورں پر زیڈ ایکس گٹکا سردرد کی گولی اور ٹافی کی طرح بکتا نظر آتا ہے، لیکن اگر کسی کو نظر نہیں آتا تو وہ محترم پولیس افسران ہیں، جو کہ اس سے صرف نظر کیے ہوئے ہیں۔
اس سلسلے میں مقامی پولیس حکام کا یہ استدلال ہے کہ ضلع شہید بینظیر آباد میں تو اس کی روک تھام کردی گئی ہے، لیکن دوسرے اضلاع سے آنے والے اس گٹکے کو کس طرح روکا جائے اس کے لیے بقول ان کے کوششیں جاری ہیں۔ دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف کے سندھ اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر حلیم عادل شیخ نے الزام عائد کیا ہے کہ سندھ میں سرکاری سرپرستی میں منشیات فروشی جاری ہے۔ شراب شہد اور منشیات چاکلیٹ بن گئی ہے ۔
جنگ سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ملک میں اسی ہزار افراد دہشت گردی اور اس سے تین گنا زائد لوگ منشیات سے ہلاک ہوئے ہیں ۔ یہ ففتھ جنریشن وار کا حصہ ہے کہ نوجوانوں کو منشیات پر لگا دو جس طرح ماضی بعید میں چینی قوم کو افیون کا عادی کرکے ان کی کئی نسلوں کو برباد کیا گیا تھا، اسی طرح یہ عالمی سازش ہے کہ پاکستان کے نوجوانوں کو گٹکا ، مین پوری ، آئس ،چرس ،افیون ، شراب اور ہیروؤن سمیت مہلک نشہ آور اشیاء کا عادی بنا کر انہیں ناکارہ کردیا جائے۔
حلیم عادل کا مزید کہنا تھا کہ منشیات اینٹی منی لانڈرنگ ہی نہیں بلکہ ایک لعنت ہے اور اس سلسلے میں وفاق اور سندھ حکومت کو قانون سازی کرنی چاہیے تاکہ اس مہلک نشے سے نوجوان نسل جن میں اسکول کالج کے بچے بچیاں بھی شامل ہیں کو بچایا جاسکے اور ان میں منہ ، گلا، معدہ اور جگر میں کینسر جیسے لاعلاج مرض کو پھیلنے سے روکا جاسکے۔