• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قارئین کرام! آج (10ستمبر2021کو) جب آپ کے زیر مطالعہ 11ستمبر 2021ء کا آئین نو تحریر کیا جا رہا ہے، دنیا میں انسدادِ خود کشی کا عالمی دن منایا جا رہا ہے جس کا آغاز نیویارک میں 9/11کے دو سال بعد عالمی ادارۂ صحت اور انسدادِ خود کشی کی بین الاقوامی تنظیم کے اشتراک سے 2003میں ہوا۔ ہم نے دیکھا کہ 2001کے 9/11 کو نیویارک کے شہرہ آفاق ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے ٹوئن ٹاور پر دو فضائی خودکش حملوں کے بعد، دیکھتے ہی دیکھتے دِنوں، ہفتوں، مہینوں اور آنے والے ہر سال میں کیسی کیسی حیران کن تبدیلیاں رونما ہوئیں جنہوں نے مشتعل بش انتظامیہ کے اِس بیانیے کی تصدیق کی کہ ’’اب دنیا بدل جائے گی‘‘۔ گویا 9/11 (2001)واقعی دنیا کو حیران کُن حد تک تبدیل کرنے والا دن ہی ثابت ہوا۔ قطع نظر اس حقیقت کے کہ مسلسل وقوع پذیر ہو رہی ہے تبدیلیاں امریکہ اور باقی دنیا کو کتنی مطلوب تھیں اور کتنی نہیں، یہ منفی طور پر افغانستان، پاکستان و بھارت، عراق و یمن و شام و سوڈان، کشمیر و فلسطین کو مختلف مہلک شکلوں میں متاثر کرنے والی رہیں، اور تو اور امریکہ کی سلامتی و استحکام کو اس ’’تبدیل شدہ دنیا‘‘ سے کیا ملا؟ سوال تو جتنا سادہ اور واضح ہے، جواب اتنا ہی ہمہ گیر اور کثیر الجہت خصوصاً نیٹو اتحادیوں، امریکہ، افغانستان، عراق، پاکستان، بھارت، ایران اور لینڈ لاکڈ سینٹرل ایشین ریجن اور پوری دنیا کو ان تبدیلیوں سے (جو براہِ راست یا بالواسطہ ’’نائن الیون‘‘ سے جڑی ہوئی ہیں) کیا اور کتنا خسارہ ہوا؟ دنیا کی پہلے 500درجے کی معیاری یونیورسٹیوں میں دس سال تک تحقیق کا آغاز ہو جائے تو (شاید) کافی حد تک خسارے کے اعداد و شمار اور جملہ اشکال و وجوہات واضح ہو جائیں گی۔ شہرہ آفاق تھنک ٹینکس پر تو اب بھروسہ نہیں کیا جا سکتا، انہوں نے ان غیرمطلوب تبدیلیاں برپا کرنے میں جو کردار ادا کیا ہے اس سے مایہ ناز عالمی دانش کا جنازہ نکل گیا ہے۔ یہ اربوں ڈالر خرچ کر کے بھی دانشورانہ بددیانتی کے مرتکب ہوئے۔ بدقسمتی سے ان کے احتساب کا کوئی عالمی یا اپنے اپنے ممالک میں کوئی بندوست نہیں۔

سانحہ نیویارک کی ایف آئی آر اور مقدمے کے بغیر ہی فرد جرم جہاد افغانستان (1979-91) میں افغان مجاہدین کے جہادی معاون اسامہ بن لادن پر لگی، جو اختتام جہاد کے بعد بھی اپنے وطن کے حکمرانوں سے اختلاف کے باعث بدستور افغانستان میں پناہ لئے ہوئے تھا۔ امریکہ اور برطانیہ کی خاموش تائید سے لیکن مکمل اپنے زور بازو پر اقتدار میں آئے طالبان کی قبائلی روایت (اور اسلامی بھائی چارے) کی بنیاد پر ان کا محترم مہمان قرار پایا تھا۔ فرد جرم کی بنیاد پر ملا عمر نے حوالۂ امریکہ کے لئے آخری انکار کیا تو افغانستان پر قیامت ٹوٹ پڑی۔ یہ افغانستان جمہوری، مہذب، ریفائن سوسائٹی بنانے کا ایجنڈا تھا لیکن یہ دہشت گردی اور انتہا پسندی کو قبضے، جارحیت اور کٹھ پتلی حکومت کے ذریعے پاک کر کے اسے دنیا کے لئے قابلِ قبول، لبرل اور نارمل معاشرے میں تبدیل کرنے کی وہ اذیت ناک داستان بن گیا، جو تورا بورا پر وسیع ہلاکت خیز بمباری سے گوانتا ناموبے اور عراق میں ابو غریب کے عقوبت خانوں تک اور پاکستان کے شہر شہر قصبے قصبے اور اسکولوں اور اسپتالوں میں خودکش حملوں کے دلخراش ابواب میں ہولناک حقائق اور اعداد و شمار کے ساتھ درج ہے۔ واضح رہے عراق پر قطعی بلاجواز امریکی حملہ اشتعال کا نہیں بش ایڈمنسٹریشن کی مکارانہ پالیسی ’’وار فار آئل‘‘ کا نتیجہ تھا، جسے خود امریکی پیس اسکالر اور تنظیموں نے بےنقاب کیا۔ نیٹو کا مقبوضہ اس کی ناک نیچے افغانستان، پاکستان کے خلاف کابل کی کٹھ پتلی حکومت اور بھارتی ریاستی دہشت گردی کے اشتراک سے افغان سرزمین دہشت گردوں خصوصاً خودکش حملوں کی تربیت و تیاری کا گڑھ بن گئی۔ پاکستانی قبائلی علاقوں میں بھی دہشت گردی کی تلاش و ہلاکت میں معصوم آبادیوں، جنازوں، شادیوں اور جرگوں پر ڈرون حملوں سے فرنٹ لائن پارٹنر کے خلاف ہی آگ بھڑکا کر پوری قبائلی بیلٹ کو مین لینڈ کا دشمن بنادیا گیا۔ جانے کس کس کی تراشی انتہا پسند اور دہشت گرد تنظیمیں شام و عراق سے نیٹو افواج اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کے لشکر کی موجودگی میں افغانستان آ کر ٹھکانے بناتی رہیں۔ 2.4ٹریلین ڈالر امریکہ نے جھونک دیے، اب مکمل اعتراف کہ سب ضائع گئے اور رسوا الگ ہوئے، خسارہ ہی خسارہ کے بعد عوامی دبائو اور سوالوں کا گراف آسمان سے چھو رہا ہے تو واشنگٹن سے نیا وضاحتی بیانیہ آیا ہے کہ ’’اسامہ کو پکڑنا یا مارنا مقصود تھا، مار دیا، مقصد حل ہو گیا‘‘۔ ہو گیا تو پھر جنگ ختم کرنے میں 10سال کیوں لگے؟ دس سال کے بعد بھی انخلا کی محفوظ راہ مسئلہ بنا ہوا تھا، کارکردگی بے نقاب نہیں ہوئی؟ نکلے تو اتنی تیزی اور ہڑبونگ میں جتنی تیزی اور امن سے طالبان نے صوبوں کا کنٹرول سنبھالنا شروع کیا۔

چار ملکوں کاخسارہ بےپناہ اور بہت تکلیف دہ ہے۔ مقبوضہ شکل میں افغانستان کا، افغان سرزمین کو استعمال کرتے ہوئے بھارت کا، نیٹو کا فرنٹ لائن پارٹنر ہونے کے باوجود پاکستان کا اور امریکہ کا تو اتنا اور اتنی اقسام کا کہ 83بلین ڈالر کا مال غنیمت طالبان کے لئے چھوڑنا تو ایک مد ہے۔ سرکاری اعداد 2.4ٹریلین اَن آڈیٹڈ کا کچھ معلوم نہیں نہ ہو گا۔

یہ معجزہ نہیں کہ اس سارے پس منظر میں شہادتوں، جیلوں اور عقوبت خانوں سے بچے کھچے بکھرے اجڑے طالبان کی مزاحمت دنیا کی 35ملکوں کی افواج، خفیہ اداروں اور افغان سرزمین پر بھارتی ریاستی دہشت گردی کے بیسز کے باوجود جاری رہی، وہ بھی 20سال تک۔ آج دنیا بھر اور حاملان خسارہ ممالک میں تجزیوں کا کل حاصل کے علمی و تحقیقی مراکز برائے امن و سلامتی یہ Discourseہے کہ ساری گریٹ گیم میں افغانستان اور پاکستان ہی بڑے بینی فشری بنے۔ طالبان 20سال بعد آج 9/11 کو افغانستان کا اقتدار سنبھال رہے ہیں اور ان کے پُرامن ملک کے بینی فشری شدت سے منتظر ہیں کہ ہم طالبان حکومت سے کب ان کے قابلِ قبول اشتراک و تعاون کے مطابق افغانستان سے باہمی بنیاد پر اپنے اپنے جائز مفادات حاصل کر سکیں حتیٰ کہ امریکہ اور بھارت بھی اس سوچ سے باہر نہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ کابل کے 9/11 سے جو یقینی تبدیلیاں برپا ہونے کو ہیں وہ کیسی ہوں گی؟

تازہ ترین