• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کرن عباس کرن، علمی و ادبی دنیا میں نسبتاً نو واردہیں۔ تعلق آزاد کشمیر کے دارالحکومت، مظفّرآباد سے ہے۔2018 میں انگریزی زبان و ادب میں بی ایس کرنے کے بعد آزاد جمّوں و کشمیر یونی ورسٹی ہی سے بطور طالبہ ایم فِل/ ریسرچ اسکالر وابستہ ہیں۔ لکھنے پڑھنے کا شوق گویا گھٹی میں پڑا ہے اور افسانوں کا ایک مجموعہ نومبر 2018 میں ’’گونگے خیالات کا ماتم‘‘ کےنام سے منظرِ عام پر بھی آچکا ہے۔

کرن عباس کےبیش ترافسانوں، مختصر کہانیوں کامرکز و محور ’’معاشرہ‘‘ ہی ہےکہ وہ جس سماج کا حصّہ ہیں، اُسی میں رہتے ہوئے اپنے کان، آنکھیں کُھلےرکھتی، اپنےاطراف ہی بکھری کئی اَن سُنی کہانیوں، اَن کہی داستانوں کو ایک خاص ہی رنگ و آہنگ سے دیکھتی اور قرطاسِ دل پر رقم کرتی ہیں۔ ناول نگاری کی دنیا میں ’’دھندلے عکس‘‘ کی صُورت یہ پہلا قدم رکھا ہے۔ اور… کیا خُوب رکھا ہے، اِس کا اندازہ قارئین کو اِس سلسلے وار ناول کے مطالعے کے بعد ہی ہوگا۔ کیوں کہ بقول کرن، ’’یہ ناول مَیں نے لکھا نہیں، مجھ سے لکھوایا گیا ہے۔ یہ کچھ الہام و کشف کے معاملات ہیں، جن کی اصل حقیقت تاحال مجھ پر بھی آشکار نہیں ہو سکی۔‘‘ بہرحال، پیشِ خدمت ہے، ناول کی پہلی قسط۔ ہمیں اپنی آرا سے آگاہ کرنا ہرگز مت بھولیے گا۔

نرجس ملک

ایڈیٹر، سنڈے میگزین

نومبر ۲۰۲۰

’’لوگ کہتے ہیں، لبِ خاموش کی آرزوؤں، التجاؤں کووقت کی ندی خاموشی سےبہالےجاتی ہے۔ ماضی کے سفر میں انسان اِن آرزوؤں کے قدموں کے نشان ڈھونڈتا چلا جاتا ہے، مگر وقت کی ندی خاموشی کی ریت کی تہیں بچھا کر دل و دماغ سے اِن کا ہر نشان مٹا دینے کی کوشش کرتی ہے۔ سو،چند مدھم خیالات کے سوا کچھ نہیں بچتا... وقت بھی پانی کی طرح ہے، سب کچھ بہا لےجانےکی تگ و دو کرتا ہے، مگر میرا مشاہدہ ہےکہ دفن آرزوئیں زندہ درگور ہو کے بھی دل کامسکن ہی رہتی ہیں۔ بلکہ یہ دفن شدہ، خاموش آرزوئیں تو زندہ آرزوئوں سے بھی زیادہ تلخ ثابت ہوتی ہیں کہ ان کانشانہ دل و دماغ نہیں، روح بنتی ہے۔

بیج جب مٹّی میں دفن ہوتے ہیں تو اپنا مکمل اثر مٹّی میں منتقل کردیتے ہیں۔ بیج کے خصائل مٹی کےوجود کامضبوط حصّہ بن جاتے ہیں، جس سےنئے پودے پُھوٹتے ہیں اور پھر بیج میں دفن تمام اجزا پودے میں منتقل ہوجاتے ہیں، ایسے ہی دفن آرزوئیں روح میں گُھل کے اپنا اثرہمیشہ کے لیے روح پہ چھوڑجاتی ہیں۔ روح کی گہرائیوں میں ہمیشہ کےلیےاپنی جڑیں مضبوط کر لیتی ہیں، جن سے پھرچھٹکارا ممکن نہیں ہوتا۔ وقت تو صرف تہیں رکھتا ہے،نشانات مٹاتا ہے، اُنھیں مار ڈالتا ہے...! مگرجوشےروح میں اُتر جائے، وہ نکالے نہیں نکلتی۔‘‘

کمرے میں دن کے وقت بھی نیم تاریکی کا راج ہے۔ کھڑکی پہ پردے گرا کر روشنی کو اندر آنے سے روکا گیا ہے۔ دیواروں پہ مختلف طرح کی پیچیدہ پیچیدہ تصاویرآویزاں ہیں۔ ہرشےمیرےوجودکی مانند بکھری ہوئی ہے۔جابجا مصوّری کاسامان پڑاہے۔ نیم اندھیرے اور بکھرے کمرے میں، مَیں بکھرے وجود کے ساتھ آرام کرسی پہ بیٹھا اُس کی ڈائری میں موجود تحریر پھر سے پڑھ رہا ہوں۔ 

یہ تحریر پھر سے مجھے ماضی کے شب و روز کی طرف لے گئی ہے۔ یادوں کے خاموش پُرسکون سمندر میں دھیرے دھیرے ارتعاش پیداہوتاجارہاہے۔ دل کےقبرستان میں موجود خوابیدہ جذبات آہستہ آہستہ انگڑائی لےرہےہیں۔ ذہن کےزندان میں قیدخیالات چُپ کے قفل ہٹا کر باہر کی راہیں تلاش کرنے میں پھر سرگرداں ہو چُکے ہیں۔ روح، خاموشیوں کے گرداب سے نکل کر غم کی بانسری کی صدا پہ محو رقص ہونےکو ہے۔

جونہی میں ماضی کی کتاب کے صفحے پلٹتا ہوں، درد آہستہ آہستہ زہر کی مانندمیرے سارے وجود میں سرایت کرتاچلاجاتا ہے۔ لیکن ماضی کو اپنی زندگی سے نکالنا میرے لیے مشکل ہی نہیں، ناممکن بھی ہے۔ ڈائری کا ہر صفحہ سیاہی کے بجائے خون سے رنگا ہوا تھا۔ ہر تحریر قلم کے بجائے اشکوں سے تحریر ہوئی تھی۔ اس کی ہرتحریر چِلاّ چِلاّ کر مجھے اپنے زخم دکھا رہی ہے۔ اور آج اس کے یہی زخم میری وحشتوں کی جگہ لے کرمجھےدرد سونپ چُکے ہیں۔

………٭٭………

مارچ ۲۰۱۰

چار سُو خاموشی نےاپنی دھاک بٹھائی ہوئی تھی۔ ایسا لگ رہا تھا، جیسے وقت کی گھڑیاں صدیوں پیچھے کہیں ماضی میں پہنچ چُکی ہوں، جہاں سوائے خاموشی کے اب کچھ بھی باقی نہیں رہا تھا۔ کمرے میں مسلسل بےمقصد ٹہلتے ٹہلتے اُسے آدھا گھنٹہ گزر چُکا تھا، لیکن بےقراری کو کسی طور قرار نہیں آرہا تھا۔ اُکتاہٹ اُسے اندر ہی اندر کاٹ کھارہی تھی۔ تھک کر وہ کھڑکی میں جا کھڑی ہوئی۔ باہر آسمان پہ سورج اپنی آخری کرنیں سمیٹنے میں مصروف تھا تاکہ زمین کے اس خطّے کو کچھ وقت کے لیے الوداع کہہ سکے۔ شام کے اس حسین منظر کو تکتے تکتے وہ جانے کہاں کھو چُکی تھی۔ خاموشی صرف اُس کے لبوں ہی کا نہیں، سوچوں، خیالات کا بھی احاطہ کیےہوئے تھی۔ 

کسی بےجان شے کی مانند وہ مسلسل باہر کے ماحول کو تک رہی تھی، جیسے کوئی پتھر کا مجسمہ کسی چیز پہ نظریں ٹکائے کھڑا ہو۔ جو نہ سوچ سکتاہے، نہ دیکھ مگرآنکھیں پھر بھی کسی منظر پہ ٹِکی ہوں۔ وہ کہاں تھی، کہاں ہے…کس صدی میں جی رہی ہے؟ اُسے اِس وقت کچھ معلوم نہیں تھا۔ باہر کی دنیا کا شور، کوئی بھی آواز سننے سے قاصر وہ جانے کس کیفیت میں تھی۔ اِس وقت اُس کا وجود ایک بےجان شے سے زیادہ نہیں تھا۔ البتہ روح کی دنیا آباد ہو چُکی تھی۔ روح کی آنکھیں دیکھ رہی تھیں اور کان سُن رہے تھے۔ وہ سب کچھ، جو جسم کی آنکھوں اور کانوں کے بس کی بات نہیں۔ اِس وقت وہ اپنے حقیقی رُوپ میں موجود تھی۔

اِن لمحات میں اگر کوئی اُسے دیکھتا تو بس اتنا ہی کہہ پاتا کہ شاید صدیوں سے وہ بول نہیں پائی۔ لوگ اُسے ایک اَسرار سمجھ کے کبھی اُس کے قریب بھی نہ آتے۔ وہ اس وقت ایک طویل، بنجر صحرا کی مانند تھی، جس کی پیاس ساحل کےساحل بھی نہ مٹاپائیں۔ صحراؤں جیسی وحشت خود میں سموئے وہ خود پہ اپنا اختیار کھو بیٹھی تھی، بس خاموشی سے نظریں ٹکائے، اُن لمحات کے امر ہونے کی دُعا مانگ رہی تھی۔

یک دَم کمرےکےدروازےپردستک ہوئی،جسے وہ سُننے کے باوجود سُن نہ پائی۔ مگر جب دستک بڑھنے لگی تو اسراء جیسےہوش کی دنیامیں واپس لوٹ آئی۔ اپنے اِس رُوپ پہ ایک دوسرے روپ کا نقاب چڑھایاکہ وہ اپنی حقیقت دنیا پہ آشکار کر کے الگ تھلگ نہیں جینا چاہتی تھی، کیوں کہ اگر وہ ایسا کرنا بھی چاہتی تو نہ کر پاتی۔ دنیااِس کی حقیقت کبھی قبول نہ کرتی اور کرتی بھی تو ایک اجنبی کے طور پہ۔

………٭٭………

خواب نگر کی وہ لڑکی خوابوں کے تعاقب میں یونہی دوڑتی پھرتی، جیسے تتلیاں پھولوں کی دیوانگی میں۔ مَن چلی،اپنی ذات میں مگن، زندگی کے حسین رنگوں میں اپنی ذات کے رنگ بَھرتی، ہر ایک کو اپنے بلند عزائم اور زندہ دلی سے متاثر کرنے کی صلاحیت رکھتی تھی۔ اُس کابس چلتا تو زمین کے بجائے پرندوں کی ہمراہی میں کسی اُڑان کے لیے نکل کھڑی ہو۔ یاپھر کوئی چمکتا دمکتا ستارہ بن کرآسمان کی زینت ہوجائے۔ 

کبھی مَن چاہتا کہ تتلی بن کر پھولوں پہ بسیرا کر لے۔ ویسے بھی پَروں کے بغیربھی وہ ہمیشہ اونچی اُڑان ہی پہ رہتی تھی۔ اُس کے قدموں نے زمین پہ چلنا تو سیکھا ہی نہیں تھا۔ زندگی کی حقیقتوں سے دُور، وہ اپنی دنیا کی شہزادی تھی۔ جس کی سلطنت میں کوئی دخل اندازی نہیں کرسکتاتھا، جہاں بس اُسی کاراج چلتا تھا۔ بیرونی دنیا بھی اس مَن چلی لڑکی سے ہر دَم متاثر ہی رہتی۔

………٭٭………

اچانک شروع ہوجانےوالی بارش نےنایاب کی ساری اُمیدوں پہ پانی پھیر دیا تھا۔ اس بےوقت اور شدید بارش کی وجہ سے وہ شدید غصّے میں تھی۔ اُسے اپنےڈیپارٹمنٹ سےاردوڈیپارٹمنٹ تک جانا تھا، کچھ نظموں کی اصلاح کےلیے۔ اگلےہفتےیونی ورسٹی میں مشاعرہ تھا، اُسےاپنےڈیپارٹمنٹ کی نمائندگی کرنی تھی، سو وہ اُردو کے پروفیسر سے اصلاح لے کر کل تک اپنا نام آگےبھیجنا چاہتی تھی، لیکن بارش اِس قدر تیز تھی کہ اُسےاورعنزہ کو پناہ لینے کے لیے راہ میں پڑتے یونی ورسٹی آڈیٹوریم میں رُکنا پڑا۔ نایاب کوویسےبھی بارش پسند نہیں تھی،اب اس بےوقت کی بارش سےاُسے شدید کوفت ہو رہی تھی۔ وہ آزاد پرندوں کی طرح صاف شفّاف موسم ہی کو پسند کرتی تھی۔ 

عنزہ چوں کہ اُس کی رگ رگ سےواقف تھی،سواس کی حالت سےخوب محظوظ ہو رہی تھی۔ اِس وقت اُن کے پاس سوائے بارش کے ختم ہونے کے انتظارکے کوئی چارہ نہ تھا۔ نایاب کے برعکس کچھ لوگ بارش سے خوب لُطف اندوز بھی ہورہےتھے۔ آڈیٹوریم میں اِس وقت مصوّری کی ایک نمائش جاری تھی،تو اپنی دل چسپی اور وقت کومدنظر رکھتے ہوئے وہ دونوں ہال میں داخل ہوگئیں۔ 

مگر…کسے معلوم تھا کہ یہ قدم اُس مَن چلی لڑکی سےہمیشہ کےلیے اُس کے پر ہی چھین لے گا۔ کسے معلوم تھا کہ پرندوں، پھولوں پہ نظمیں لکھنے والی لڑکی یہاں سے نکلنے کے بعد اپنے قلم کو لہو میں ڈبو کر اشکوں کی تحریر لکھے گی۔ کسے معلوم تھا یہ ہر دَم ہنستی مُسکراتی لڑکی اب زندگی بھر کے لیےمُسکرانا ہی بھول جائے گی۔ یہ گھڑیاں اُس کی کہانی کا آغازکرنےجارہی تھیں، وہ کہانی جسے آسمان پہ تحریر ہونا تھا۔

………٭٭………

میرا سفید لباس لہو میں تربتر تھا۔ جیسے کسی نے مجھ پر سُرخ رنگ کا چھڑکاؤ کیا ہو۔ جسم کا پور پور درد کی شدّت سےبلبلا رہا تھا، لیکن مَیں ہمیشہ کی طرح خاموش اپنےہی زخموں کوکسی تماشائی کی طرح تَک رہا تھا۔ درد کی شدّت بڑھی تو مَیں نے اپنے جسم کو حرکت دینے کی کوشش کی۔ اس حرکت سے میری آنکھیں کُھل چکی تھیں۔ آج لگا تار یہ تیسری رات تھی کہ مَیں مسلسل یہی خواب دیکھ رہا تھا۔ 

اپنے خُشک حلق کو پانی سے تر کرتے ہی مَیں نے اُٹھ کر اپنی نامکمل پینٹنگ کو دیکھا۔ حسین سبزہ زار میں سفیداُڑتا پرندہ۔ کتنا پُرسکون سامنظر تھا، لیکن جانے کیوں اس تصوّر کو رنگوں میں ڈھالنے کے بعد میری وحشتوں کے سمندر میں مسلسل بےچینی کےجھکّڑچل رہےتھے۔ مَن کے پیاسے صحرا کو کسی پَل قرار نہیں آ رہا تھا۔ اور پھر یہ خواب… اذیت کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ۔

رات کی یہ پُرسکون گھڑیاں بھی میرے اس اضطراب کو سہنے پہ مجبور تھیں، بالکل ویسے ہی جیسے مَیں خود کو اس وقت مکمل طور پر بےبس محسوس کررہا تھا۔ کتنے تلخ مناظر کو مَیں اب تک رنگوں میں ڈھال چُکا تھا۔ کتنی وحشتوں کو مَیں نے رنگوں کی زبان دی تھی۔ ہر بار مجھے ایک ذہنی اور روحانی کرب سے گزرنا پڑا تھا لیکن یہ اذیّت ہر اس اذیّت پہ بھاری تھی، جو مسلسل تین دن گزرنےکےباوجودمیرا پیچھا نہیں چھوڑ رہی تھی، وہ بھی تب، جب کہ یہ تصویر میری پچھلی تمام تخلیقات کی نسبت ایک بہت پُرسکون منظر پیش کر رہی تھی۔

اُمید تھی کہ شاید سیاہ رات کی تاریکی چَھٹتے ہی میری وحشت کو بھی کچھ لمحوں کا قرار حاصل ہوجائےگا، مگر میری یہ خوش فہمی محض خوش فہمی ہی ثابت ہوئی۔ میرے یہ خواب اور آخری پینٹنگ کامنظرمیرے اعصاب پہ بُری طرح سوار تھے۔ تین دن سےمَیں ایک ایسے زندان میں قیدتھا، جہاں قرار کی ایک کرن تک موجود نہیں تھی۔ فی الوقت مجھےاپنےکمرے کے زنداں سے باہر جانا تھا تاکہ وقتی طور پہ ہی سہی، اِن وحشتوں سے رہائی پا سکوں۔ لیکن صبح کی روشنی جیسےجیسے میرے وجود پہ پڑرہی تھی،میری وحشت میں مزیداضافہ ہو رہا تھا۔ جیسے جیسے روشنی، تاریکی کے پردے کو نوچ رہی تھی، مَیں خود پہ اپنا اختیار کھوتا جا رہا تھا اور اِسی خوف نے میری وحشت کو پُرجلال بھی کر دیا تھا۔ مَیں نہ چاہتے ہوئے بھی خود کو راستے میں پڑی ہرشےکو تہس نہس کرنے پہ مجبور پا رہا تھا۔ 

کمرےکاسارافرش کانچ کے بکھرےٹکڑوں سے بھر چُکا تھا۔ میرے ہاتھ لہو سےسنے ہوئےتھے اوران سےلہو زمین پہ ایسے گر رہا تھا، جیسے کسی بچّے کے ہاتھ سے سُرخ رنگ کی دوات چُھوٹ گئی ہو۔ یک لخت مَیں نے قرار کی ایک لہر سی محسوس کی۔ میرےقدم اب تیزی سے کینوس کی جانب رواں تھے۔ ہاتھ سے بہتے سُرخ رنگ کو جیسے ہی مَیں نے سفید پرندے کے پَروں پہ چھڑکا، اِک عجیب سی سرشاری اور قرار نے میرے مَن کو اپنی آغوش میں سمیٹ لیا۔ 

روح کی تکلیف روپوش ہو رہی تھی اور جسم کے زخم گہرے ہو کر بھی محسوس نہیں ہو رہےتھے۔ جسمانی تکلیف، روحانی آسودگی میں ڈھل رہی تھی۔ اور مَیں شدید تکلیف میں بھی مُسکرارہا تھا۔ یوں محسوس ہو رہا تھا، جیسے یہی تکلیف میرا چین، میرا قرار ہے۔ دماغ کی بےاختیاری اکثر انسان کو کوئی انتہائی قدم اٹھانے پہ مجبور کردیتی ہے۔ روح کےبےکراں دشت میں دیوانگی کا برہنہ پا رقص اب بھی جاری ہے۔ اندھیرے اپنی ہی تاریکی سے خوف زدہ ہو کرروشنیوں سے اپنے وجود کےخاتمےکی دُعا کرتے ہیں۔ یہی حال تاریک وحشت کے زندانوں میں قید تڑپتی بلکتی روحوں کا بھی ہے۔ (جاری ہے)

تازہ ترین