• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ججز تقرری میں بار کونسلز سے رائے لی گئی، وکلا احتجاج کے اصل محرکات سمجھ نہیں آرہے، چیف جسٹس گلزار احمد

وکلا احتجاج کے اصل محرکات سمجھ نہیں آرہے، چیف جسٹس 


اسلام آباد (اے پی پی) چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد نے کہا ہے کہ ججز تقرری کے معاملے پر بار کونسلز کے صدور کو متعدد بار دعوت دی،بار کونسلز اور وکلا کیلئے اب بھی دروازے کھلے ہیں، وکلاء آکر مجھے بات چیت کریں، ججز تقرری میں بار کونسلز سے رائےلی گئی، وکلاء احتجاج کے اصل محرکات سمجھ نہیں آرہے، کورونا وباء کے باعث عدالتوں میں زیر التوا مقدمات میں اضافہ ہوا۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے پیر کو یہاں سپریم کورٹ میں نئے عدالتی سال کے آغاز پر منعقدہ فل کورٹ ریفرنس سے خطاب میں کیا ۔ اس موقع پر اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ ججز تقرری سمیت عدلیہ کے تمام مسائل کے حل کیلئے وفاقی حکومت ہر وقت تیار ہے،ممبر پاکستان بار کونسل امجد شاہ نے کہا اعلیٰ عدلیہ کے ججز کو ریٹائرمنٹ کے بعد کوئی عہدہ قبول نہیں کرنا چاہیے ۔ چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں ہونے والے فل کورٹ ریفرنس میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے علاوہ عدالت عظمیٰ کے تمام معزز ججز صاحبان فل شریک ہوئے، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ بیرون ملک ہونے کے باعث شریک نہ ہو سکے ۔ فل کورٹ ریفرنس میں وائس چیئرمین پاکستان بار کونسل خوشدل خان کی جگہ سابق وائس چیئرمین پاکستان بار کونسل سید امجد شاہ ، صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن لطیف آفریدی کی جگہ سیکرٹری سپریم کورٹ بار احمد شہزاد رانا اور اٹارنی جنرل خالد جاوید خان سمیت تمام لا افسران ، سینیر وکلا اور دفتری عملہ نے بھی شرکت کی۔ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد نے فل کورٹ ریفرنس سے خطاب میں کہا کہ گزشتہ سال ہر لحاظ سے پاکستان سمیت دنیا بھر کیلئے مشکل سال تھا،کورونا وائرس کی وبا کے باعث مقدمات کو نمٹانے کی راہ میں زیادہ مشکلات کا سامنا رہا، وباء کے باوجود عدالتوں کا دروازہ عوام کیلئے کھلا رکھا ، عدالتوں میں زیر التوا مقدمات میں اضافہ ہوا، زیر التوا مقدمات میں اضافے کی وجہ وکلا کا کورونا کی وجہ سے عدالتوں میں پیش نہ ہونا بھی ہے۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ عدالتی سال کے آغاز پر 45644 زیر التوا مقدمات تھے، گزشتہ سال 20910 نئے مقدمات درج ہوئے جبکہ 12968 مقدمات نمٹائے گئے، نمٹائے جانے والے مقدمات میں 6797 سول پٹیشنز، 1916 سول اپیلیں، 469 نظرثانی کی درخواستیں تھیں، گزشتہ سال 2625 فوجداری پٹیشنز،681 کریمنل اپیلیں ،37 کریمنل نظر ثانی درخواستیں اور 100 اوریجنل کریمنل درخواستیں نمٹائی گئیں، گزشتہ سال ماڈل کورٹس نے کل 55694 مقدمات نمٹائے، جن میں171 ماڈل کرمنل کورٹس نے قتل اور منشیات کے 14190 کیسز نمٹائے، 149 ماڈل ٹرا ئل مجسٹریٹ کورٹس نے 20032 کیسز نمٹائے جبکہ 117ماڈل سول اپیلٹ کورٹس نے 21472 کیسز نمٹائے۔ انہوں نے کہا کہ رواں برس ہم نے عدالت عظمیٰ کے دو سینئر ججز جسٹس فیصل عرب اور جسٹس مشیر عالم کو مدت ملازمت پوری ہونے پر الوداع کہا۔ جسٹس فیصل عرب اور جسٹس مشیر عالم کی خدمات عدالتی تاریخ میں سنہرے حروف سے لکھی جائیں گی ۔ چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ سپریم کورٹ میں ویڈیو لنک کے ذریعے بھی مقدمات کی سماعت کی جاتی ہے، 23 دسمبر کو نیشنل جوڈیشل کمیٹی نے ڈسٹرکٹ جوڈیشری کی دس سالہ کارکردگی کا جائزہ لیا، پشاور ہائیکورٹ کو تجویز دی کہ ٹرائیبل ایریا کے ضم ہونے کے بعد ججز کی تعداد میں اضافہ کرے۔ انہوں نے کہا کہ ہائیکورٹس کو عدالتوں کی تزئین و آرائش کیلئے فنڈز فراہم کر دیئے گئے،لا اینڈ جسٹس کمیشن کی جانب سے مفت قانونی رہنمائی کیلئے ڈسٹرکٹ امپاورمنٹ کمیٹی بھی قائم کی گئی۔ چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ ججز تقرری کے معاملے پر بار کونسلز کے صدور کو متعدد بار دعوت دی،بار کونسلز کے صدور کی جانب سے بتایا گیا کہ وہ پشاور میں ہیں،میں نہیں جانتا کہ بار کونسلز نے کیوں یکطرفہ موقف اپناتے ہوئے معاملے کو اٹھایا،ججز تقرری کے معاملے پر بار کونسلز کی رائے ہمیشہ لی گئی ہے۔

تازہ ترین