• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

لاہور اس لئے دنیا میں ایک عظیم شہر کے طور پر جانا اور مانا جاتا ہے کہ اس کی مٹی میں خاص کشش ہے،فضاؤں میں برکت اور ماحول میں محبت رچی ہے۔ دل اس کی کرامتوں سے فیض یاب ہوئے بنا نہیں رہ سکتے۔اس شہر کے مکین اسی باعث دنیا کے کسی کونے میں بھی ہوں اس سے جدائی کی کسک محسوس کرتے ہیں۔لوٹ لوٹ کر اس کے دیدار کو آتے ہیں اور ذات کی جھولی میں محبت کی کرنیں بھر کر تازہ دم ہو کر پردیس میں اپنے ٹھکانوں کی طرف جاتے ہیں۔ زندہ دلی بھی محبت کی دین ہے۔جب محبت ہوس کی میل اتار پھینکتی ہے تو لطافت کی طرف گامزن ہوتی ہے۔ یہی روحانیت کا نقطہ آغاز بھی ہے، نور کا سایہ جس بھی شے،صورت اور عنصر پر پڑتا ہے، اسے جگمگا دیتا ہے، جذبوں میں نئے پھول کِھلاتا ہے جن کی مہک پاکیزگی کی پیامبر بنتی ہے۔ سوچ کو یوں اُجالتا ہے کہ وہ تاریک راہوں اور ذہنوں کو روشن کرنے لگتی ہے۔ احساس کو پوِتر کومل اور پرتاثیر بناتا ہے۔لاہور کی تمام جگمگاہٹ،زندہ دلی،انسان نوازی اور برکت کا سبب اس پر روحانیت کے تناور اشجار کا سایہ ہے۔لاہور میں تقریباً ایک سو کے قریب ایسے صوفیاء اور اولیاء کے دربار موجود ہیں جن کے بارے میں شواہد اور تذکرے تاریخ کی مستند کتابوں میں محفوظ ہیں۔ ان میں زیادہ تعداد ان صوفیاء اور اولیاء کی ہے جو دور دراز ممالک سے تبلیغ اور سلوک کی منزلیں طے کرنے یہاں آئے اور پھر لاہورمیںہی سکونت اختیار کر لی۔زندگی یہیں بسر کی اور مرنے کے بعد بھی یہیں دفن ہونا پسند کیا۔آج بھی لاہور کی کئی اہم سڑکوں،محلوں اور علاقوں کے نام ان صوفیا اور اولیا کے نام سے منسلک ہیں۔

آج ہم جس ولی کی بات کریں گے وہ بھی ایک ایسی ہستی ہیں جن کا تذکرہ ہم اکثر سنتے ہیں۔ حضرت سید بہاؤ الدین جھولن شاہ بخاری المعروف حضرت گھوڑے شاہ پیدائشی ولی تھے۔آبائواجداد کی روحانیت اور درویشی سے گہری جڑت تھی اور اس خاندان پر خدا کا خاص کرم ہے۔ ولایت وراثت میں نہیں ملتی لیکن بزرگوں میں ولی ہو تو اس کا اثر نور کی کرنیں بن کر شخصیت کو جگمگاتا ہے۔ حضرت گھوڑے شاہ کے دادا حضرت سید عثمان المعروف شاہ جھولہ بخاری وقت کے بہت بڑے ولی تھے۔ ان کا شجرہ نسب آٹھ سلسلوں سے حضرت مخدوم سید جلال الدین بخاری تک پہنچتا ہے۔ سہروردیہ سلسلے سے تعلق رکھنے والے شاہ جھولہ کے بارے میں بیان کیا جاتا ہے کہ ایک بار اونٹ پر سوار ہو کر لاہور جاتے ہوئے ان کا بازو مسلسل اونٹ کو ہانکنے کے باعث کچھ تھکن اور کمزوری کا شکار ہوا تو انھوں نے ہاتھ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا، کیا تجھے جھولہ یعنی رعشہ ہو گیا ہے،انکے لبوں سے نکلی بات چند لمحوں میں حقیقت بنی اور رعشہ موت تک باقی رہا۔ان کا مزار، شیخ حسینی اور پنج پِیر کے نام سے معروف ہے۔شاہی قلعہ کی تعمیر سے قبل یہ علاقہ لاہور کی آبادی میں شامل تھا۔یہیں شاہ جھولہ کو دفن کیا گیا۔ اب ان کا مزار شاہی قلعے کے تہہ خانے میں ہے۔ان کی وفات کے بعد ان کے بیٹے سید شاہ محمد ان کی مسند پر بیٹھ کر سماج کو خیر کی جانب راغب کرتے رہے وہ خود بھی ایک صاحبِ کرامت بزرگ تھے۔ایک بار کلانور جاتے ہوئے رستے میں پڑاؤ کیا۔ہندو زمیندار سارنگ نے جانوروں کو پانی پلانے کی اجازت نہ دی۔جب شاہ محمد کو یہ خبر دی گئی تو انھوں نے جلال میں نیزا زمین پر مارا، جہاں چشمہ جاری ہو گیا۔ان کے چار بیٹوں کے نام اندرون شہر کے کئی علاقوں کے ناموں کی صورت آج بھی پکارے جاتے ہیں۔

ابھی حضرت گھوڑے شاہ کی عمر دو تین برس کی تھی کہ کرامتوں کا ظہور ہونے لگا۔ان کی کہی باتیں بارگاہ ایزدی میں منظور ہونے لگیں۔معصوم ولی کو مٹی کے بنے گھوڑوں سے کھیلنا بہت پسند تھا۔ ولایت کی خبر عام ہونے کے بعد اپنی خواہشات کی تکمیل اور درد کے مداوے کی تمنا لے کر آنے والے حاجت مند مٹی کا بنا کھلونا گھوڑا عقیدتاً آپ کی خدمت میں پیش کرتے اور دعائے خیر کی استدعا کرتے۔اسی مناسبت سے لوگ انھیں گھوڑے شاہ کے نام سے پکارنے لگے جو امر ہوتا گیا۔جب دور دور تک یہ خبرپھیل گئی کہ گھوڑوں سے کھیلنے والے بچے کی دعائیں قبول ہوتی ہیں اور اسے راز کی باتیں معلوم ہیں تو ان کے والد سید شاہ محمد نے شدید اظہارناپسندیدگی کیا مگر بچے کو قائل کرنا اور روحانی اسرار ظاہر نہ کرنے پر راضی کرنا مشکل تھا۔ اس لئے خدا سے دعا کی کہ یہ بچہ وہ راز ظاہر کرنے لگا ہے جن کی اولیاء پردہ پوشی کرتے آئے ہیں۔میں اسے باز نہیں رکھ سکتا،اس کی وجہ سے دین کو نقصان پہنچ سکتا ہے، لوگوں کے اعتقادات کو ٹھیس لگ سکتی ہے اسلئے اپنے اِس خاص بندے کو اپنے پاس واپس بلا لے۔ والد کی دعا قبول ہوئی اور دس برس کی عمر میں میں اس ولی کا انتقال ہوا جس کی شہرت ہندوستان کے حاکم جلال الدین محمد اکبر کے دربار تک پہنچ چکی تھی۔ جس جگہ ان کا دربار ہے وہ سڑک آج بھی حضرت گھوڑے شاہ کے نام سے موسوم ہے اور لوگ آج بھی ان سے بے پناہ عقیدت رکھتے ہیں۔

تازہ ترین