حکومت نے وزیراعظم کے جمعہ کو قومی اسمبلی میں آنے کا وعدہ کیا تھا، وہ ٹال دیا ہے، اسپیکر ایاز صادق کہتے ہیں کہ وزیراعظم پیر کو آئیں گے۔
وزیراعظم نے آنے سے پہلے اپوزیشن کو ہری جھنڈی دکھادی، کہہ دیا کہ پارلیمنٹ میں صرف پارلیمانی باتیں ہوگی،اثاثوں اور پاناما کی باتیں کمیشن میں ہی ہوں گی۔
اسلام آباد کا موسم ٹھنڈا ، لیکن سیاسی درجہ حرارت بائلنگ پوائنٹ پر پہنچ چکا ہے،ایک دوسرے پر الزامات کے بادل گرج رہے ہیں، بیانات کی بجلیاں کڑک رہی ہیں۔
وزیر اعظم کے اہل خانہ کی کتنی آف شور کمپنیاں ہیں،لندن کے اپارٹمنٹس کب خریدے،پیسے کہاں سے آئے، تیس سال میں کتنی جائیداد بنائی،پاناما لیکس کی پچ پر اپوزیشن کی سات سوالوں کی یارکرز پر وزیر اعظم نے پہلا چھکا لگادیا۔
جی ہاں پارلیمنٹ میں صرف پارلے مانی بات ہوگی،یعنی وزیر اعظم نے اپوزیشن کے ارمانوں پر پانی پھیر دیا،ان کے سوالوں کو فل ٹاس بنا کر جوڈیشل کمیشن کی باؤنڈری پر بھیج دیا،نواز شریف نے کہا کہ کرپشن کی تحقیقات تو صرف بہانہ ہیں اصل فسانہ تو ان کا پیچھا کرنا ہے۔
اپنے خلاف الزامات کے پنڈورا بکس پر وزیر اعظم نے کہا کہ کچھ لوگوں نے تو شروع سے ہی انہیں وزیر اعظم تسلیم نہیں کیا، حالانکہ اسپتال جاکر بھی ان کی عیادت کی تھی ۔
بہر حال تازہ ترین صورت حال یہ ہے کہ حکومت اور اپوزیشن کا جو ستے پہ ستہ کل قومی اسمبلی میں ہونا تھا اس میں امپائر ایاز صادق نے فریقین کی باہمی رضا مندی سے تین روز کا وقفہ دے دیا۔
اب پیر کو کیا ہوگا، کیا معاملات جوڈیشل کمیشن سے بالا بالا طے ہوجائیں گے، یا دونوں ٹیمیں ٹی ٹونٹی بیانات کا سلسلہ جاری رکھیں گی؟