موجودہ حکومت ٹیکس دہندگان کا دائرہ بڑھانا چاہتی ہے، پاکستان میں صرف پانچ دس لاکھ لوگ ٹیکس دیتے تھے ۔
حکومتی کوششوں سے ایف بی آر کے متحرک ہونے پر یہ تعداد 30 لاکھ ہو گئی ہے مگر اب بھی یہ سوال اہم ہے کہ بائیس کروڑ لوگوں میں سے صرف 30 لاکھ افراد ٹیکس دیتے ہیں، اس کا مطلب ہے پاکستان میں بڑے پیمانے پر ٹیکس چوری اب بھی ہو رہی ہے۔
لوگ ٹیکس ادا کرنا فرض نہیں سمجھتے۔ امریکہ کی مثالیں دینے والوں کی خدمت میں عرض ہے کہ امریکہ میں آفتوں، کورونا اور جنگوں کے باوجود ساڑھے تین ہزار ارب ڈالر کا ٹیکس دیا گیا۔
امریکہ میں ٹیکس کی ادائیگی سے بچنا مشکل کام ہے لوگ سہولتوں کے حوالے سے برطانیہ کی مثالیں بھی دیتے ہیں مگر کبھی کسی نے سوچا کہ کورونا کے بعد جب ملکوں کی معیشتوں پر برے اثرات مرتب ہوئے تو اس دوران بھی برطانیہ نے اپنے لوگوں سے 820ارب پائونڈز کا ٹیکس اکٹھا کیا۔
واضح رہے کہ برطانیہ ہمارے صوبہ سندھ سے چھوٹا ہے مگر وہاں ٹیکسوں کا نظام بڑا مربوط ہے ۔مثالیں دی جاتی ہیں کہ یورپ، امریکہ اور کینیڈا کے لوگ اس لئے ٹیکس دیتے ہیں کہ وہاں کی حکومتیں لوگوں کو سہولتیں دیتی ہیں چنانچہ وہاں ٹیکس کلچر ہے۔
اس سلسلے میں گزارش ہے کہ وہاں کی حکومتیں اسی لئے لوگوں کو سہولتیں دیتی ہیں کہ وہاں کے لوگ ’’ڈنڈی‘‘ نہیں مارتے، پورا ٹیکس ادا کرتے ہیں، ٹیکس چوری نہیں کرتے اگر وہاں کے لوگ ٹیکس نہ دیں تو وہاں کی حکومتیں کبھی بھی لوگوں کو سہولتیں نہ دیں ۔وہاں ٹیکس نیٹ ورک اتنا سخت ہے کہ ٹیکس سے بچنا مشکل ہے وہاں بھی بڑے کاروباری گروپ ہیرا پھیری کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن یہ کوشش بہت دفعہ کامیاب نہیں ہوتی ۔
خیر وہاں ٹیکس کلچر ہے لوگ ہوں یا کمپنیاں، ٹیکس دینا ہی پڑتا ہے۔جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ یہاں کے لوگ مغربی لوگوں سے بہت مختلف ہیں یہاں ٹیکس کلچر ہی نہیں ایسے لوگوں کے لئے چین اور بھارت کی مثال حاضر ہے ۔
ہندوستان میں مالی سال 2013-14 میں ٹیکس آمدنی 6.38کروڑ ہوئی ۔یہی آمدنی مالی سال 2018-19 میں 12لاکھ کروڑ ہو گئی ۔پہلے ٹیکس ریٹرن جمع کروانے والوں کی تعداد 3.79 کروڑ تھی، پانچ سالوں میں یہ تعداد 6.85کروڑ ہو گئی ۔
بھارت نے یہ کامیابی ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے ذریعے حاصل کی، سسٹم کو چوبیس گھنٹے آن لائن ممکن بنایا، میڈیا پر مہم چلائی، ٹیکس ریٹ کم کیا اور ٹیکس کا دائرہ بڑھا دیا، انہوں نے یہ سب کچھ یو پی آئی یعنی یونیفائیڈ پیمنٹ انٹر فیس کے ذریعے کیا۔
انہوں نے کوشش کرکے اپنی معیشت کو کیش لیس بنایا، سب کچھ آپ کے موبائل سے جوڑ دیا بھارت کے 148بینک یو پی آئی سسٹم سے منسلک ہو چکے ہیں اور یہ نظام پورے بھارت میں کام کرتا ہے۔ چند سال پہلے کی گئی اس تبدیلی سے بھارت کی معیشت مضبوط ہوئی۔
چین میں 80فیصد لوگ موبائل سے ادائیگیاں کرتے ہیں، چین کی معیشت بھی ڈیجیٹل ٹیکنالوجی سے جڑی ہوئی ہے ۔ چین میں ٹیکس چوری بہت مشکل کام ہے، انہوں نے ایسا نیٹ ورک بنا رکھا ہے کہ کسی کا بھی بچنا مشکل ہو جاتا ہے مگر چین اور بھارت کے مقابلے میں وطن عزیز کی بڑی مارکیٹوں میں بھی ڈیجیٹل ٹیکنالوجی نہیں جبکہ ان دونوں ملکوں میں یہ ٹیکنالوجی عام دکانوں پر ہے ۔
ہمارے ہاں تو پتہ ہی نہیں کہ آج فیصل آباد کی سوتر منڈی یا لاہور کی شاہ عالم مارکیٹ میں کس نے کیا کمایا، کراچی کا صدر بازار ہو، کوئٹہ کی کباڑی مارکیٹ یا پشاور کی کارخانو مارکیٹ ہو، پتہ ہی نہیں چلتا کہ ان مارکیٹوں میں کتنا کمایا گیا اور پھر یہ پیسہ کہاں کہاں گیا۔
اگر ہم عظیم قوم بننا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں ٹیکس دینا ہو گا پھر ہماری حکومت کو تمام موبائل اکائونٹ ایف بی آر سے منسلک کرنا ہوں گے پھر ہمیں اپنی معیشت کو بھی ڈیجیٹل لباس پہنانا ہو گا، ہمیں کیش کے عمل دخل کو مشکل ترین بنانا ہو گا، ہمیں بھی یو پی آئی جیسا ادارہ بنانے کی ضرورت ہے ۔
ہمارے تاجر کا عجیب حال ہے وہ اپنی حکومت کو بھی نفع بتانے سے ڈرتا ہے، وہ نمازیں تو پڑھتا ہے لیکن ٹیکس چوری نہیں چھوڑتا۔ہم مثالیں یورپ کی دیتے ہیں جہاں دکانیں شام ساڑھے پانچ چھ بجے بند ہو جاتی ہیں مگر ہمارا تاجر اس پر غور نہیں کرتا ، ہمارا تاجر ہمسائے کی باتیں تو بہت کرتا ہے، ہمسائے سے کچھ سیکھتا نہیں ۔
چین میں مغرب سے پہلے کاروبار بند ہو جاتا ہے مگر ہمارا تاجر بضد ہے کہ میں تو رات گیارہ بارہ بجے تک لازمی دکان کھولوں گا، اسے نہ دین کی فکر ہے نہ دنیا کی ، وہ فطرت کے خلاف چلنا چاہتا ہے ۔
اس کی فیملی لائف برباد ہو رہی ہے وہ آرام کے وقت کام کرتا ہے اور کام کے وقت آرام کرتا ہے، اس کے لئے رکھا گیا برکت کا وقت اس کی نیند میں گزر جاتا ہے۔ ہمارے تاجر کے اس شیڈول سے برکت جاتی رہی صحت بھی خراب ہو گئی ، ہماری تاجر تنظیموں کو اس پر ضرور سوچنا چاہئے ۔
ہم سب لوگوں کو بھی اپنے سونے جاگنے کے اوقات بدل دینے چاہئیں، ملک سنوارنے کے لئے ٹیکس ادا کرنا چاہئے ۔ حکومت کو بھی چاہئے کہ وہ معیشت کو ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کی جانب دھکیل دے تاکہ ٹیکس چوری رک سکے ۔بقول سرور ارمان
لوٹ لے جاتا ہے بس چلتا ہے جس کا جتنا
روشنی شہر میں تقسیم کہاں ہوتی ہے