نیویارک (عظیم ایم میاں)وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کی امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن سے پہلی ملاقات،پاکستان نے کشمیر میں بھارتی مظالم کا ڈوزیئر پیش کردیا، امریکی ڈومور کی پھر رٹ،شاہ محمود کاکہناہےکہ پہلے ہی عشروں سے30لاکھ سے زائد افغان مہاجرین کو پناہ دے رکھی، مزید بوجھ برداشت نہیں کرسکتے،امن و استحکام کےمشترکہ مقصد کے حصول کیلئے ملکر کام کرنا ہوگا۔
امریکی وزیر خارجہ بلنکن کاکہناہےکہ امریکا موسم سرما میں انڈوپیسفک حکمت عملی کا اعلان کریگا، آسیان نقطہ نظر کی حمایت جاری رکھیں گے،افغانستان سے امریکی شہریوں کے انخلاء میں پاکستان نے ناقابل بیان سہولت دی۔
گزشتہ روزامریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے درمیان اہم ملاقات میں افغانستان کی صورتحال پر دونوں طرف سے اپنے اپنے موقف کا اظہار کیاگیا، پاکستان نے واضح کیا کہ پاکستان پہلے ہی کئی عشروں سے 3؍ ملین سے زیادہ افغان مہاجرین کو پناہ دیئے ہوئے ہیں لہٰذا پاکستان مزید افغان مہاجرین کا بوجھ برداشت کرنے سے قاصر ہے۔
ذرائع کے مطابق دونوں وزرائے خارجہ کے درمیان ملاقات تقریباً ایک گھنٹہ جاری رہی جس میں امریکا کی جانب سے افغان صورتحال اور طالبان کے حوالے سے ’’ڈومور‘‘ کا مطالبہ بھی کیا گیا جبکہ پاکستان کی جانب سے تمام طبقوں کے نمائندوں پر مشتمل جامع افغان حکومت کی حمایت کااظہار کیا گیا۔
پاکستان کی جانب سے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے ہمر اہ امریکا میں پاکستان کے سفیر ڈاکٹر اسد مجید اور اقوام متحدہ میں پاکستانی سفیر منیراکرم دونوں شامل مذاکرات تھے جبکہ امریکی وزیر خارجہ کے ساتھ ان کے معاونین کے علاوہ زلمے خلیل زاد بھی ٹیم میںشامل تھے جو سابق صدر ٹرمپ کے دور سے اب تک طالبان کےساتھ مذاکرات کے تمام مراحل میں خصوصی امریکی نمائندہ کے طور پر عہدہ پر قائم ہیں۔
پاک امریکا مذاکرات کے ایک مرحلے پر وزیر خارجہ شاہ محمود اور ٹونی بلنکن علیحدہ کھڑے ہو کر بھی گفتگو کرتے رہے۔ ذرائع کا کہنا ہےکہ ملاقات کے دوران دونوں طرف سے وہ نکات بھی اٹھائے گئے جن پر دونوں ممالک کے درمیان موقف میں قربت یا یکسانیت ہے البتہ پاکستان کی جانب سے بھارت امریکا قربت اور جاپان آسٹریلیا، امریکا بھارت، پارٹنرشپ سے پاکستان اور خطے میں چھوٹے ممالک کے سیکورٹی خدشات کےبارے میں پاکستان کی جانب سے کوئی مسئلہ نہیں اٹھایا گیا۔
ملاقات شروع ہونے سے قبل امریکی وزیر خارجہ کی جانب سے وہی ریمارکس دہرائے گئے جو انہوںنے آسیان ممالک کے بعض وفود سے ملاقات کے وقت جاری کئے تھے۔ انہوں نے پاکستان سمیت ان تمام ممالک کا شکریہ اداکیا، جنہوں نے افغانستان سے امریکیوں کے انخلا میں تعاون کیاتھا۔
انڈوپیسفک اوشین کےبارے میں امریکی وزیر خارجہ نے کہا کہ امریکااس موسم سرما میں انڈوپیسفک اسٹریٹجی کا اعلان بھی کرے گا۔ پاکستانی وزیر خارجہ نے کشمیر میں بھارتی مظالم اور بھارت کی پاکستان دشمنی اور دہشتگردی کے بارے میں ایک ڈوزیئر بھی دیا۔
اس ملاقات سے پاک امریکا بات چیت آگے بڑھی ہے لیکن امریکا کی جانب سے مطالبات میں نہ تو کمی آئی ہے اور نہ بھارت کی جانب سے پاکستان کے سیکورٹی خدشات پر توجہ دی گئی۔
وزیر خارجہ شاہ محمود کی ٹیم میں دونوں سفیروں کی موجودگی اور شرکت مذاکراتی ٹیم کی مضبوطی اور بہتری کا اظہار ہوتاہے جبکہ امریکی ٹیم میں زلمے خلیل زاد کاموجود ہونا پاکستان مخالف موقف کی عکاسی بھی ہوتی ہے۔
صدر بائیڈن کے دور میں پاکستان اور امریکا کے وزرائے خارجہ کی یہ پہلی بالمشافہ ملاقات بھی تھی۔امریکی محکمہ خارجہ کی جانب سے جاری مشترکہ اعلامیہ کے مطابق امریکی وزیر خارجہ کاکہناتھاکہ میں اپنے دوست اور پاکستانی ہم منصب شاہ محمود قریشی سے مل کر بہت خوش ہوں۔
ہمیں ان کئی مہینوں میں فون پر بات کرنے کے بہت سے مواقع ملے تاہم آخر کار اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ایک دوسرے کو ذاتی طور پر دیکھنے کا ملا ہے، افغانستان سے شروع ہوکر ہمارے ملکوں کا ساتھ مل کر کام کرنا اور افغانستان پر آگے بڑھنے سمیت معاملات پر بہت زیادہ توجہ مرکوز رہی۔
پاکستان کے اس ناقابل بیان کا م کو سراہتے ہیں کہ افغانستان سے امریکی شہریوںو دیگر کے انخلاء میں پاکستان نے بہت زیادہ سہولت دی۔شاہ محمود قریشی کاکہناتھاکہ شکریہ ، سیکرٹری بلنکن، آج آپ کے وقت کا شکریہ، میں آپ سے آمنے سامنے مل کر خوش ہوں۔
جیسا کہ آپ نے کہا ، ہم نے تین بار ٹیلی فون پر بات چیت کی جس میں علاقائی صورتحال ، افغان صورتحال پر تبادلہ خیال کیا گیا،ہمیں اپنے مشترکہ مقصد کے حصول کے لیے اجتماعی طور پر کام کرنے کا راستہ تلاش کرنا ہوگا جو کہ امن اور استحکام ہے،چنانچہ یہ ملاقات مجھے افغانستان کی ابھرتی ہوئی صورتحال ، اپنے دوطرفہ تعلقات اور جنوبی ایشیا کی نازک صورتحال پر تبادلہ خیال کرنے کا ایک اچھا موقع فراہم کرتی ہے۔
قبل ازیں امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے آسیان ممالک کے وزرائے خارجہ کے ساتھ ملاقات پر ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اس مختصر نوٹس پر ملنے پر آمادہ ہونے کیلئے آپ سب کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔
برونائی کے چیئرمین شپ کیلئے وزیر خارجہ ایریوان اور آج ہمارے ساتھ اس اجلاس کی مشترکہ صدارت کیلئے وزیر خارجہ ریتنو کا بہت شکریہ، آج کی گفتگو شروع کرنے سے پہلے میں کئی ممالک کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں جنہوں نے یہاں اس مدد کی نمائندگی کی جو آپ نے افغانستان سے انخلاء اور نقل مکانی کی کوشش کے ساتھ فراہم کی تھی۔
ہم اس شراکت داری کے شکر گزار ہیں خصوصاً ان تمام کے جنہوں نے تشدد کی مذمت کی، ملک چھوڑنے کے خواہشمند افراد کو محفوظ راستہ دینے کا مطالبہ کیا، عین اسی وقت جب ہمیں دنیا کے دیگر حصوں میں چیلنجز کا سامنا ہے۔
آسایان سے امریکا کا وعدہ مضبوط ہے، آسیان انڈو پیسفک خطے کے آر کی ٹیکچر کا مرکزی مقام ہے اور یہ ہمارے اپنے استحکام ، معاشی مواقع اور قواعد پر مبنی بین الاقوامی نظم کے لیے اہم ہے۔ ہم انڈو پیسفک پر آسیان نقطہ نظر کی حمایت جاری رکھیں گے۔ ہمیں یقین ہے کہ آسیان کے لیے ہماری حمایت AOIP کے تعاون کے چار ترجیحی شعبوں کے مطابق ہے۔
اس موسم خزاں میں امریکا ہماری نئی ، جامع انڈو پیسفک حکمت عملی جاری کرے گا۔ یہ ایک آزاد ، کھلے ، باہم مربوط ، لچکدار اور محفوظ خطے کے لیے ہمارےمشترکا وژن پر استوار ہے۔
آسیان کے نقطہ نظر کی طرح یہ انڈو پیسفک خطے کے لیے جنوب مشرقی ایشیا کی اہمیت اور خطے کے مستقبل کے تعین میں آسیان کے اہم کردار کی عکاسی کرے گا۔ لہٰذا میں آج کی بحث کا بہت منتظر تھا ، یہاں سب کو دیکھ کر بہت اچھا لگا اور آغاز کرنے پر بہت خوش ہوں۔