نیویارک(ایجنسیاں)وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے تجویزدی ہے کہ بین الاقوامی برادری ایک روڈ میپ تیار کرے جو افغان طالبان کیسفارتی پہچان کا باعث بنے اور اس میں ان کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے مراعات ہوں اور پھر آمنے سامنے بیٹھ کر گروپ کے رہنماؤں سے بات کریں۔ ʼاگر وہ ان توقعات پر پورا اترتے ہیں تو وہ اپنے لیے آسانی پیدا کریں گے، انہیں تسلیم کیا جائے گا جو پہچان کے لیے ضروری ہے، اس دوران بین الاقوامی برادری کو بھی یہ سمجھنا ہوگا کہ ان کے پاس طالبان کو تسلیم کرنے کے سوا کیا آپشن ہیں ؟ اختیارات کیا ہیں؟ یہ حقیقت ہے اور کیا وہ اس حقیقت سے منہ موڑ سکتے ہیں؟عالمی برادری طالبان کے ساتھ جدید انداز میں رابطے استوار کرے‘ طالبان سے روابط کے لیے پاکستان تعمیری کردار ادا کر نے کو تیار ہے۔ جمعرات کو ایک انٹرویو میں شاہ محمودکا کہناتھاکہ عالمی برادری کو بھی اب یہ حقیقت تسلیم کرنی چاہیے جو بدلی نہیں جاسکتی، عالمی برادری کے ساتھ پاکستان بھی چاہتا ہے کہ افغانستان میں دہشت گرد قدم نہ جما سکیں۔افغان سرزمین کسی کیخلاف استعمال نہ ہونے کی یقین دہانی پاکستان بھی چاہتا ہے‘پاکستان عالمی برادری سے بھی حقیقت پسندانہ نکتہ نظرکی توقع کرتا ہے‘عالمی برادری طالبان کے ساتھ جدید انداز میں رابطے استوار کرے‘ طالبان سے جس طرح برتاؤکیاگیا اس طریقہ کار نے کام نہیں کیا‘حالات معمول پر لانے کے لیے افغانستان کے منجمد اثاثے جاری کرنے ہوں گے، طالبان سے روابط کے لیے پاکستان تعمیری کردار ادا کر نے کو تیار ہے‘حقیقت پسندانہ سوچ اورعملی نکتہ نظر ہی طالبان حکومت تسلیم کرنیکا راستہ ہے۔اچھی بات یہ ہے کہ طالبان پڑوسی ممالک اورعالمی برادری کی بات سن رہے ہیں، طالبان نے اپنی عبوری حکومت میں دیگر قبائلی اقلیتی ارکان کو شامل کیا ہے، افغان حکومت میں خواتین کی شمولیت پر دیکھتے ہیں حالات کس طرف جاتے ہیں، عالمی برادری مل کر افغانستان کے لیے روڈ میپ بنائے جوبہت تعمیری اقدام ہوگا، طالبان توقعات پوری کرتے ہیں توعالمی برادری افغانستان کی مددکرسکتی ہے۔استحکام کی نئی کوششوں میں فوری کامیابی کی توقع نہیں کرنی چاہیے۔اگلے 6ماہ میں افغانستان کیسا ہوگا کے سوال پر شاہ محمود نے جواب دیا کہ آپ مجھے اگلے 6 ماہ میں امریکی رویے کی ضمانت دے سکتے ہیں۔