کشمور پولیس نے ڈاکوؤں کے خلاف گرینڈ آپریشن کرکے ، اینٹی ائیر کرافٹ گنز، راکٹ لانچر، گولے، اسنائپر رائفلیں اور دیگر جدید اسلحہ بر آمدکیا۔ پولیس حکام کا کہنا ہے کہ ڈاکوؤں کا اسلحہ اب ان ہی کے خلاف استعمال ہوگا۔ انہوں نے کشمور کے 70 ڈاکوؤں پر 14 کروڑ روپے سے زائد انعام کی سفارش کردی ہے۔ سندھ میں امن و امان کی صورتحال کو مکمل بحال اور مستحکم رکھنا وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی ذمہ داری ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ پولیس کا محکمہ ،صوبائی حکومت اور وزارت داخلہ کا ماتحت ادارہ ہے اس لئے قیام امن کو بحال رکھنا، عوام کی جان و مال کی حفاظت کو یقینی بنانا، ڈاکوؤں اور جرائم پیشہ عناصر کی سرکوبی کرنا،سندھ حکومت اور آئی جی پولیس کی ذمہ داری ہے اور ضرورت پڑنے پر وفاقی حکومت اور اداروں کی خدمات بھی حاصل کی جاسکتی ہیں۔
دیکھنے میں آیا ہے کہ جو کوآرڈی نیشن شکارپور اور کشموراضلاع کے پولیس افسران کے مابین ہے، وہ سکھر رینج کے افسران میں دیکھنے میں نہیں آرہی۔ شکارپور میں ڈاکوؤں اور جرائم پیشہ افراد کی بیخ کنی کے جس طرح اقدامات کیےتھے، اسی نوع کے اقدامات کی سکھر میں بھی ضرورت ہے۔
سندھ میں کچے کے علاقے اور جنگلات جو سکھر اور لاڑکانہ رینج میں آتے ہیں ان میں سب سے زیادہ خطرناک کشمور ضلع تصور کیا جاتا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کے ساتھ بلوچستان اور پنجاب کی سرحدیں ملتی ہیں ۔کشمور کا ایک سرا شکارپور تو دوسرا گھوٹکی کے ساتھ ملتا ہے ۔کشمور اور شکارپور میں ایس ایس پی امجد احمد شیخ اور ایس ایس پی تنویر حسین تنیو ڈاکوؤں کےخلاف آپریشن میں مصروف ہیں جب کہ ڈی آئی جی لاڑکانہ مظہر نواز شیخ بذات خود تمام صورت حال کو مانیٹرکررہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان دونوں اضلاع جو اغوا برائے تاوان کی وارداتوں کا گڑھ سمجھے جاتے تھےاور وہاں ڈاکو را ج قائم تھا، اب ان میں چین و سکون ہے۔
کشمور میں آپریشن کمانڈر امجد احمد شیخ نےکم نفری، ڈاکوؤں کےجدید ہتھیاروں کے مقابلے میں فرسودہ اسلحے کے ساتھ پولیس آپریشن کی قیادت کرکے کامیابیاں سمیٹی ہیں۔ جنگ کو موصول ہونے والی رپورٹ کے مطابق کشمور کچے کے درانی مہر کے علاقے میں آپریشن کے دوران پولیس نے جئیند جاگیرانی، خادم بھیو، ٹکر سبزوئی سمیت متعدد ڈاکوؤں کی کمین گاہوں پر قبضہ کرکے پولیس چوکیاں قائم کردیں۔ اس آپریشن کے نتیجے میں ڈاکوؤں کو پہلی بار اتنے بھاری مالی اور جانی نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔
ایس ایس پی ، امجد احمد شیخ نے بتایا کہ درانی مہر کچے میں ڈاکوؤں سے 118 مقابلے ہوئے جن میں اشتہاری ملزمان سمیت 15 بدنام ڈاکو ہلاک ہوئے جب کہ 75 زخمی سمیت 336ڈاکوؤں کوگرفتار کیاگیا۔ پولیس کارروائی میں ڈاکوؤں کے قبضے سے بھاری تعداد میں اسلحہ برآمد ہوا جن میں 2 اینٹی ائیر کرافٹ گن، تین راکٹ لانچر 13 گولوں کے ساتھ 15 مارٹر گولے، 7 اسنائپر رائفلیں ، تین کلو بارودی مواد، 39 کلاشنکوف، 64 شاٹ گن، 16 رائفل، 103 پسٹل، سیکڑوں راونڈز برآمد کئے گئے ہیں ۔ڈاکوؤں اور جرائم پیشہ افراد کے 64 گروہوں کا خاتمہ کیا گیا۔
چوری اور چھینی گئی 156 موٹر سائیکلیں اور 188 موبائل فون، جن کی مالیت 85 لاکھ سے ایک کروڑ روپے بنتی ہے ، برآمد کرکے اصل مالکان کے حوالے کیے گئے۔کراچی سمیت ملک کے مختلف شہروں سے اغوا کیے گئے 500 سے زائد مغویوں کو بازیاب کرایاگیا۔3841 اشتہاری اور روپوش ملزمان کو گرفتار کیا گیا۔ پولیس حکام کے مطابق، ڈاکوؤں سے برآمد ہونے والا اسلحہ اب ان سے مقابلے کے لیے ہی استعمال ہوگا۔ امجد شیخ نے بتایا کہ اینٹی ائیر کرافٹ گنزچوکیوں پر نصب کردی گئی ہیں۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ پولیس کی مسلسل کارروائیوں کے نتیجے میں اغوا برائے تاوان کی وارداتوں میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے۔ چند ماہ قبل تک کشمور کا ضلع اغوا برائے تاوان کی وارداتوں کی صنعت کی صورت اختیار کرگیا تھا، یہاںتاوان وصولی کے لیے لوگوں کو یرغمال بنا کر رکھا جاتا تھا ۔ ’’نسوانی ایپس‘‘کی جدید ٹیکنالوجی استعمال کرتے ہوئے خواتین کی آواز میں ملک بھر سے لوگوں کو دوستی کے جال میں پھنسا کر اغوا برائے تاوان کی وارداتیں کیں اور مغویوں کو ان علاقوں میں رکھا گیا۔ ملک کے متعدد شہروں سے غوا کیے گئے افراد کو پولیس نے شکایت ملنے پر بغیر تاوان کے باحفاظت بازیاب کرایا۔ ڈی آئی جی لاڑکانہ مظہر نواز شیخ ،ایس ایس پی شکارپور تنویر حسین تنیو اور ایس ایس پی کشمورامجد احمد شیخ خودمتحارب علاقوں میں واقع چوکیوں کا دورہ کرتے ہیں ۔
ایس ایس پی امجد احمد شیخ نے نمائندہ جنگ سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ کشمور سے گھوٹکی تک کچے کا انتہائی خطرناک علاقہ ہے ۔کشمور کی سرحد شکارپور سے ملتی ہےجو مکمل سیل کردی گئی ہے اور وہاں کڑی نگرانی کی جارہی ہے ۔اس علاقے میں ڈاکوؤں اور جرائم پیشہ افراد کی سرکوبی کے لیے تنویر حسین تنیو جیسا بہادر آفیسر موجود ہے۔ امجد شیخ نے اس عزم کا اظہار کیا کہ ڈاکوؤں کا مکمل خاتمہ کرکےکچے کے جنگلات کو تفریحی مقام میں تبدیل کیا جائے گا۔
زراعت کے حوالے سے یہ زرخیز علاقہ ہے ، یہاں قیام امن کے بعد زمینوں پر لوگ چین و سکون کے ساتھ کاشت کاری کریں گے۔۔ انہوں نے بتایا کہ کشمور کی جو سرحد گھوٹکی کے ساتھ لگتی ہے ،وہاں ہمیں مسائل درپیش ہیں۔درمیان میں دریا کا کچھ ٹکڑاہےجہاں ڈاکو فرار ہونے کے لیے کشتیوں کی مدد لیتے ہیں لیکن ہم یہ نہیں کرسکتے کیو نکہ ہمیں اپنے جوانوں کی زندگی زیادہ عزیز ہے۔ آئی جی سندھ کو سفارشات بھیجی ہیں، جن کے بعد پولیس کو بلٹ پروف بوٹس اور جدید اسلحہ فراہم کیا جائے گا۔ بلٹ پروف بوٹس ملنے کے بعد دریاکے اس حصے میں بھی پولیس کا کنٹرول ہوگا۔
ہم نے محکمہ جنگلات سے بھی تعاون طلب کیا ہے تاکہ گھنے جنگات میں ڈاکوؤں کے فرار کے راستوں کو مسدود کیا جاسکے۔ ڈاکوؤں کی جانب سے حال ہی میں پولیس کو ملنے والی دھمکیوں کے سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اب وہ چاروں طرف سے پھنس گئے ہیں ، وہ کچھ بھی کرلیں، ہم نے تہیہ کرلیا ہے، اب ان کا خاتمہ کرکے دم لیں گے ۔ پولیس کی سفارش پر حکومت کچے میں سڑکیں تعمیر کروا رہی ہے جس سے پولیس کی رسائی ہر علاقے میں ممکن ہوگی۔ کچے کے علاقوں میں چوکیاں قائم کرکے 24 گھنٹے پولیس کی موجودگی کو یقینی بنایا جاسکے گا۔