• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’آفاق ‘‘کے چیف نیوز ایڈیٹر تھے جناب ظہور عالم شہید، اداریہ نویس تھے۔ مولانا غلام رسول مہر او ر ان کے بعد جناب بشیر احمد ارشد، انتظار حسین نے سب سے پہلے آفاق میں ہی کالم لکھنا شروع کیا۔

آفاق کے عملہ ادارت میں جناب زکریا ساجد، جناب علی سفیان آفاقی ، جناب زاہد چودھری، جناب میم شین، جناب ضیاء الاسلام انصاری، جناب مقبول احمد جیسے نامور صحافی شامل تھے‘‘ ۔(صفحہ 163)

قارئین ! یہاں اس بات کا اضافہ کرتا چلوں کہ جناب علی سفیان آفاقی بعدازاں نامور فلم رائٹر، پروڈیوسر اور ڈائریکٹر بن کر ابھرے جنہوں نے ’’کنیز‘‘ اور ’’آس‘‘ جیسی سپرہٹ فلمیں بنائیں۔ 

آفاقی صاحب مرحوم و مغفور سے میری نیاز مندی رہی انتہائی نفیس نستعلیق انسان تھے ....اب واپس چلتے ہیں ’’قاضی صاحب کی آپ بیتی کی طرف ۔صفحہ 237پر لکھتے ہیں لائل پور کے حوالہ سے ‘‘۔

’’جب روزنامہ ’’غریب ‘‘ کا اجرا عمل میں آیا تو اس دور کے ایک معروف صحافی جناب آزاد شیرازی بھی ’’غریب‘‘ کی مجلس ادارت میں شامل تھے ۔ ان کا نام اخبار کی لوح پر چودھری ریاست علی آزاد کے نام کے ساتھ شائع ہونے لگا۔ 

آزاد شیرازی کا دلچسپ مشغلہ یہ تھا کہ جس سے بھی ان کا تعلق رہا اسے انہوں نے اخبار نکالنے پر لگا دیا ۔کئی کاتب اور اخبار فروش ان کی نظر کرم سے ایڈیٹر اور ناشر بن گئے جن میں خوشنویس حاجی محمد اسحاق گوجرہ سے روزنامہ ’’امن‘‘ نکالنے لگے اور اخبار فروش وزیر محمد جالندھری نے گوجرہ سے ہی ہفت روزہ ’’جانباز‘‘ شائع کرنا شروع کر دیا ‘‘۔

روزنامہ ’’غریب‘‘ اس زمانہ 1955-56ء میں ایک ترقی پسند اور روشن خیال اخبار کا تاثر رکھتا تھا اور اس کی وجہ سے اس کی مجلس ادارت میں ترقی پسند شاعر احمد ریاض کی شمولیت تھی جو ’’غریب‘‘ کا اداریہ لکھتے تھے اور لائل پور میں روزنامہ ’’امروز‘‘ لاہور کے نمائندہ خصوصی بھی تھے ۔

روزنامہ ’’امروز‘‘ کے ایڈیٹر احمد ندیم قاسمی اور جائنٹ ایڈیٹر حمید اختر ان کا بہت احترام کرتے تھے ۔ احمد ریاض لدھیانہ کے رہنے والے تھے جہاں ممتاز انقلابی شاعر ساحر لدھیانوی ان سے اصلاح لیا کرتے تھے ۔

حمید اختر بھی لدھیانہ کے باسی ہونے کے باعث احمد ریاض کے ساتھ رشتہ دوستی میں منسلک تھے ۔’’امروز‘‘ سے احمد ریاض کے قریبی تعلق کے باعث ’’غریب‘‘ پر بھی ایک ترقی پسند اخبار کی مہر لگ گئی اور اسے ’’امروز‘‘ کے توسط سے اہم اور مستند خبریں ملنے لگیں‘‘۔

قارئین ! کیسے کیسے لوگ تھے جن کی یادیں بھی دھند لانے لگی ہیں ۔اس کالم کے ذریعہ یادوں کا یہی گرد آلود آئینہ صاف کرنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ قاضی صاحب پھر میرے لائل پور (اب فیصل آباد) کے حوالہ سے رقمطراز ہیں ۔

’’50کے عشرے میں لائل پور کے افق صحافت پر جو چار ستارے بڑی آب وتاب کے ساتھ جگمگا رہے تھے ان میں ریاست علی آزاد، خلیق قریشی ، ناسخ سیفی اور چودھری شاہ محمد عزیز شامل ہیں ۔

ان میں خلیق قریشی اس اعتبار سے بہت نمایاں تھے کہ ﷲ تعالیٰ نے ان کے پیکر میں شعروادب اور سیاست و صحافت کا حسین امتزاج پیدا کیا تھا ۔خلیق قریشی کو تحریک پاکستان میں حصہ لینے کا منفرد اعزاز بھی حاصل تھا۔

ان کی ادارت میں صحافت کی تربیت پانے والوں نے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں بہت نام پیدا کیا ۔روزنامہ ’’عوام‘‘ میں بچوں کا صفحہ مرتب کرنے والے شفیق جالندھری پنجاب یونیورسٹی میں شعبہ صحافت کےسربراہ کے باوقار منصب تک پہنچے‘‘۔

قارئین ! صرف اطلاعاً عرض ہے کہ بہت بعد 1970ء کے لگ بھگ میری شاعری روزنامہ ’’عوام‘‘ میں شائع ہونے لگی ۔

عوام ہی کے قمر لدھیانوی مرحوم میرے استاد تھے جن کے اشعار مجھے آج بھی یاد ہیں مثلاً

اجنبی شہر یہ نسبت تو رہے گی تجھ سے

تیری گلیوں میں ہے کھویا ہوا اپنا کوئی

خلیق قریشی صاحب مرحوم میرے والد کے دوست بھی تھے ۔ان کے فرزند اور منفرد ترین شاعر افتخار نسیم مرحوم گورنمنٹ کالج لائل پور میں میرے سینئر اور بڑے بھائیوں جیسے تھے اور بے پناہ شاعر عدیم ہاشمی بھی ان کے بہت ہی قریبی رشتہ دار تھے۔عدیم کے کچھ شعر

میں ابھی زندہ سسکتا ریت کے ٹیلوں میں تھا

اضطراب اک پھر بھی منڈلاتی ہوئی چیلوں میں تھا

..............

تمام عمر کا ہے ساتھ آب و ماہی کا

پڑے جو وقت تو پانی نہ جال میں آئے

..............

فاصلے ایسے بھی ہوں گے یہ کبھی سوچا نہ تھا

سامنے بیٹھا تھا میرے اور وہ میرا نہ تھا

آج یہ دونوں دوست اور قریبی رشتہ دار یعنی عدیم ہاشمی اور افتخار نسیم شکاگو میں ابدی نیند سو رہے ہیں ،جب جائوں حاضری دیتا ہوں۔

’’آسماں ان کی لحد پہ شبنم افشانی کرے‘‘

(جاری ہے )

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)

تازہ ترین