• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وومن پروٹیکشن اتھارٹی پنجاب کی چیئر پرسن کنیز فاطمہ چدھڑ نے عورتوں کے حقوق کےلئے کچھ سلوگن بنانےکےلئے کہاتو ذہن میںجو بات آئی وہ کاغذپر منتقل کرتا چلا گیا۔ وہ ٹوٹے پھوٹے جملے کچھ یوں تھے،

’’میں حضرت خدیجہؓ کے نقشِ کف ِپا پر چلتی ہوں اور کاروبار کرتی ہوں‘‘۔’’میں نرس ہوں اورمیدانِ بدر اور احد میں زخمیوں کی مرہم پٹی کرنے والی عظیم عورتوں کے نقشِ قدم پر چلتی ہوں‘‘۔’’حکومتِ پنجاب عورت کو معاشرہ میں باعزت مقام دلانے کےلئے ہر ممکن کوشش کرے گی ‘‘۔’’اللہ نے عورت کو جو حقوق دیئے ہیں وہ مرد نہیں چھین سکتا‘‘۔’’‎اسلام نے عورت کو مردکے برابرحقوق دئیے ہیں‘‘۔’’اسلام کے نزدیک یکساں معاشی مواقع دونوں کا حق ہیں ‘‘۔’’اسلام عورت کو اپنی زندگی سے متعلق فیصلے لینے کی آزادی دیتا ہے‘‘۔’’جنہیں (عورت اور مرد)ماں باپ نے آزاد پیدا کیا تم انہیں کیسے غلام بنا سکتے ہو -حضرت عمرؓ‘‘۔’’ہم عورت کیلئے ان تمام اختیارات کی آزادی کے علمبردار ہیں جو دوسروں کیلئے نقصان کا باعث نہ ہو۔(حکومت پنجاب)‘‘۔’’وجودِ زن سے ہے تصویرِ کائنات میں رنگ۔ اقبال ‘‘۔’’دنیا کی رونق عورت کے دم سے ہے ‘‘۔’’عورت کا کوئی نعم البدل نہیں ‘‘۔’’کائنات کا سب سے عظیم المرتبت قبیلہ فاطمہ بنت محمدؐسے شروع ہوتا ہے ‘‘۔’’میں نے جنت نہیں دیکھی مگرماں دیکھی ہے ‘‘۔’’عورت کمزور نہیں ‘‘۔’’غیرت کے نام پر عورت پرظلم بے غیرتی ہے‘‘۔’’ عورتوں کے مردوں پر ایسے ہی حقوق ہیں جیسے مردوں کے عورتوں پر۔ قرآن حکیم‘‘۔’’پنجاب میں عورت کوہر معاملہ میں پورا قانونی تحفظ حاصل ہے‘‘۔’’گھریلو تشدد کے خاتمے کا بل پارلیمان میں منظور‘‘۔’’مظلوم خواتین مدد کےلئے’’ وویمن پروٹیکشن اتھارٹی ‘‘کے دفتر آئیں۔ کنیز فاطمہ چدھڑ ‘‘۔’’خواتین کی ہراسگی ناقابل معافی جرم ہے۔ حکومت پنجاب‘‘۔

ابھی یہیں پہنچا تھا کہ خیبر پختونخوا کے ضلع نوشہرہ کے ایک گاؤں میں ہونے والی واردات کی خبر سنائی دی۔ غیر ملکی میڈیا پر ایک عورت کہہ رہی تھی،’’کچھ پتہ نہیں کتنا عرصہ گزر گیا ہے اس تاریک کمرے میں، دو سال یا شاید تین سال۔ بس میرے پیروں میں یہ زنجیریں ڈالی گئی ہیں جس سے میں کھڑی نہیں ہو سکتی اور اب بیٹھے بیٹھے میرے گھٹنے اسی جگہ اکڑ گئے ہیں کیونکہ میں اتنا عرصہ بیٹھی ہی رہی ہوں۔‘‘خبر کی تفصیلات دیکھیں توآنکھیں بھر آئیں۔ صرف چالیس پچاس کنال زمین کی خاطر اتنا ظلم اور وہ بھی قریبی رشتہ داروں کی طرف سے۔ یہ خاتون اکلوتی بیٹی تھی۔ ماں باپ کے فوت ہوجانے کے بعد جن رشتہ داروں نے اس کا خیال رکھنا تھا انہوں نے ایسے کمرے میں قید کیا جہاں نہ تو دن کی روشنی کا گزر ممکن تھااور نہ ہی آواز کسی درزسے باہر نکل سکتی تھی۔ کھڑکیوں پر ٹین کی چادریں لگا دی گئی تھیں۔ افسوس کہ قیدی کو کھانابھی پورا نہیں دیتے تھے۔ پولیس نے جب اسے بازیاب کیا اور تھانے میں اسے کھانا دیا تو وہ اس پر ٹوٹ پڑی اور کہا ’’بڑے طویل عرصہ بعد اتنا کھانا کھانے کو ملا ہے‘‘۔پولیس کے مطابق کسی نے اطلاع دی کہ فلاں مکان میں ایک عورت طویل عرصہ سے قید ہے۔ ایک خاتون پولیس اہلکار سفید کپڑوں میں اُس گھر میں بھیجی گئی۔ اس نے تصدیق کی کہ واقعی اس گھر میں ایک کمرہ ایسا ہے جہاں کوئی قید ضرور ہے۔ پولیس نے چھاپہ مارا اوربرسوں بعد ایک عورت کے نصیب میں پھر روشنی آئی۔ سچ یہی ہے کہ پاکستان میں ابھی بے شمار خواتین ایسی ہیں کہ وہ کمروں میں قید میں نہیں مگر پھر بھی اندھیرے میں ہیں۔ ان کے پیروں میں زنجیر نہیں مگر اٹھ نہیں سکتیں، چل نہیں سکتیں۔ وہ جن کےلئے کنیز فاطمہ چدھڑ جیسی کئی دل والیاں مصروف عمل ہیں۔ پولیس نے ایک ملزم کو گرفتار کر لیا ہے۔ دوسرے ملزم کی تلاش جاری ہےمگر نہیں سمجھتا کہ اتنی سزا مل سکے گی جتنی ملنی چاہئے۔ افسوس ابھی قانون اس قابل نہیں ہوا کہ وہ غریب، یتیم اور بے سہارا لوگوں کو انصاف فراہم کر سکے۔ ابھی تک پاکستان ایک نہیں دو ہیں، غریبوں کےلئے اور ہے، امیروں کےلئے اور۔مگر ابھی تک عمران خان سے دامنِ امیدوابستہ ہے، آج جب انہوں نے کہا ’’بڑے بڑے مافیاز قانون کی راہ میں رکاوٹ ہیں اور اس کی بالادستی نہیں چاہتے۔ماضی کے حکمرانوں نے نظام کو مضبوط نہیں ہونے دیا‘ کرپٹ سسٹم سے فائدہ اٹھانے والے مافیازکہتے ہیں ہمیں این آر او دے دیں اور غریبوں کو پکڑیں‘‘ تو دل خون کے آنسو رو دیا۔اللہ تعالیٰ عمران خان کو کامیاب کرے۔

اسی سال جولائی کے مہینے میں خیبر پختون خواکے شہر صوابی سے بھی پولیس نے ایک خاتون کوبازیاب کیا تھا۔ اسے بھی زنجیر وں سے باندھ کرکمرے میں قید رکھا گیاتھااور قید کرنے والے اس کے سگے بھائی تھے۔ نوشہرہ والے بھائی سگے بھائی نہیں ماموں زاد تھے۔ خاتون کو ماں کی طرف سے ورثے میں تقریباً 40 سے 45 کنال زمین ملی تھی۔جسے ماموں زاد اپنے پاس رکھنا چاہتے تھے۔ انہیں یقین تھا کہ اس خاتون کو جیسے موقع ملے گا یہ کسی سے شادی کر لے گی اور یوں اس کے حصے کی زمین ان کے قبضے سے نکل جائے گی۔ خواتین کو جائیداد سے محروم کرنے کا سلسلہ صدیوں سے جاری ہے بلکہ عورت کو صدیوں مرد جائیداد قرار دیتے رہے۔ کائنات میں عورت کے حق میں پہلی آواز اسلام نے اٹھائی اورمیاں بیوی کو ایک دوسرے کا لباس قرار دیا۔ موجودہ حکومت نے اس سلسلے میں بڑے اہم اقدامات کئے ہیں مگرظالموں کی عادتیں سروں کے ساتھ جاتی ہیں۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین