• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قوتِ اظہارِ خیال اگرسلب کر دی جائے تو انسان اور میمنے میں فرق صرف ہیئت کا ہوتا ہے، حیثیت ختم ہو جاتی ہے۔ اس کو ہانک کر مقتل میں بھی لے جاؤ تو بِلا چوں چراں منمناتا ہوا چلا جائے گا۔ باقی میمنے نما انسان بھی ساتھی کو سوئے دار جاتا دیکھ کر مہرِ بلب ہی رہیں گے کیوںکہ ان کو بھی لب کشائی کی عادت اور اجازت نہیں۔ بولے کون؟

دراصل خرابی تو خشتِ اوّل سے ہی شروع ہو جاتی ہے۔ ہماری تربیت کی پہلی اینٹ ٹیڑھی لگائی جاتی ہے۔ بچوں کو ہدایت کی جاتی ہےکہ یہ سوال نہیں کرنا۔ ’’کیوں؟‘‘ اِس لئے کہ لڑائی ہوتی ہے۔ ایسا کرنا گستاخی ہے۔ یہ دولے شاہ کے نیم چوہے جب بلوغت کی عمر کو پہنچتے ہیں تو ہمارا گلا سڑا گروہی نظام ان کی پرورش اپنی کڑی نگرانی میں کرتا ہے تاکہ سوال اٹھانے کی حمیت و ہمت کی رتی بھر رمق بھی رہ گئی ہو تو اس کا بھی قلع قمع کر دیا جائے۔ اس اہتمام و انتظام کے باوجود اگر کسی سر پھرے کے سر میں کسی سوال یا خیال کا کیڑا کلبلائے تو مذہب اور حب الوطنی کی توہین کا تازیانہ ایسا برسایا جائے کہ آبرو اور جان بچانا مشکل ہو جائے۔ ایسے میں بولے کون؟

یہ کان پھاڑ دینے والی خاموشی کا راج یونہی نہیں ہے۔ یہ ہو کا عالم محض اتفاق نہیں۔ سناٹا اتنا کیوںہے کہ کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی؟ سہل و سادہ تحریر بھی مشکل لگتی ہے۔ زبانوں کو زنگ لگ گئے ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ عوام مغوی ہیں، اعداد منفی ہیں، عالم درباری ہیں، مشیر بازاری ہیں، جوان بیزار ہیں، بزرگ بیکار ہیں، میڈیا بِکا ہوا ہے، سیاستدان جھکا ہوا ہے، بولے کون؟

اور زیادہ اہم سوال یہ ہے کہ بولیں کیا؟ لب کشائی اگرصرف اربابِ بست و کشاد کے اشارے پر اصحابِ حکم و جاہ کی توصیف کے لئے اور بودے فیصلوں کی توثیق کے لئے ہی ہے تو صاحبِ علم کہتے ہیں یہ ذہنی غلامی ہی نہیں بلکہ ملک و قوم سے غداری کے مترادف ہے۔ منظور شدہ مروڑے تروڑے الفاظ آزادیٔ اظہار کے ساتھ بہیمانہ مذاق اور سچائی کی لاشِ بےکفن کی بےحرمتی ہیں۔ لوگوں کی توقعات ہیں کہ کوئی تو توصیف و توثیق کے جھوٹ سے نکل کر سچ کی توقیر کا بھرم رکھے مگر بولے کون؟ جمہوریت کے ایوان میں، جسے قومی اسمبلی کہا جاتا ہے، جہاں عوام اور قوم کی تقدیر کے فیصلے ہوتے ہیں، اگر وہاں بھی بات چھپ کر اور چھپا کر ہونی ہے تو بہتر ہے کہ ان کو مقفل کر دیں تاکہ بلا وجہ کے خرچے سے بچا جائے۔ چھوٹے سے کمرے میں بیٹھ کر بڑے سے جھوٹ کی بنیاد پر فیصلے کر دیں۔ عوام کو اندھیرے میں رکھیں کیونکہ وہ بیوقوف ہیں۔ انہیں شعور ہی نہیں کہ ملک اور عوام کے لئے کیا بہتر ہے۔ فیصلے ایسے انداز میں کریں کہ دہائیوں بعد بھیانک نتائج کی تپش پہنچے تو نہ فیصلے کرنے والے ہوں نہ احتساب کا کوئی سوال ہو۔

کچھ عاقبت نا اندیش اس وقت اہلِ علم اور اہلِ قلم کو اکساتے ہیں کہ آپ پہ بھاری ذمہ داری ہے کہ سچائی کو عوام تک پہنچائیں۔ قیمت جو بھی چکانی ہو وہ چکائیں۔ اندھیروں میں کئے فیصلوں کے نقصانات و مضمرات سے لوگوں کو آگاہی دیں۔ اور اس تکرار سے بتلائیں کہ سب بیدار ہو جائیں اور سوال کرنا شروع کر دیں کہ ہمارے بارے میں یہ کیا فیصلہ کیا ہے؟ کیوں کیا ہے؟ کیسے کیا ہے؟ مگر یہ بولے کون؟ فیض (میرا مطلب فیض احمد فیض) تو اکساتے اکساتے، بتاتے بتاتے، امید بڑھاتے بڑھاتے آگے بڑھ گئے۔ بول کہ لب آزاد ہیں تیرے مگر ان کا اجلا پیغام کالے نیلے خاکی قوانین کے گھپ اندھیروں میں دھول چاٹ گیا۔ زیرک و عمل پسند سمجھاتے رہے کہ شاعری کو شاعری ہی سمجھیں، عملی زندگی سے اس کا کیا تعلق۔ اب تو قوانین کی بجائے کراماً کاتبین ایک ٹِکر پر ہی ٹُکر بند کر دیتے ہیں اور نعرہ حق بلند کرنے والے ٹُکر ٹُکر دیکھتے رہ جاتے ہیں۔ تو بھائی بولے کون؟

عافیت و مصلحت خاموشی کے متقاضی ہیں۔ اگر فیض اس دورِ آشوب میں زندہ ہوتے تو وہ بھی اپنے من اور فن کو اذیت کی موت دیتے ہوئے فرماتے:

بھول کہ لب آزاد ہیں تیرے

اور زباں کہاں اب تیری ہے

تیرا ستواں جسم ہے تیرا

بھول کہ جاں اب تک تیری ہے

بھول کہ لب آزاد ہیں تیرے

اور زباں کہاں اب تیری ہے

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین