• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کراچی اورنج لائن: 5 سال سے صرف بن ہی رہی ہے


کراچی میں صرف گرین لائن ہی نہیں، سندھ حکومت کے محکمہ ٹرانسپورٹ کے تحت بنائی جانے والی اورنج لائن 5 سال سے صرف بن ہی رہی ہے۔

پچاس ہزار لوگوں کے لیے بنائی جانے والی لائن کو عبدالستار ایدھی کے نام سے منسوب بھی کردیا لیکن کام مکمل نہ ہوسکا۔

ایشیا کی بڑی کچی آبادیوں میں شامل اورنگی ٹاؤن میں 10 جون 2016ء کو سابق وزیراعلیٰ سندھ قائم علی شاہ نے اورنج لائن بس منصوبے کا سنگ بنیاد رکھا اور اسے گرین لائن کی طرح ہی ایک سال میں مکمل کرنے کا اعلان ہوا، لیکن اعلان صرف اعلان رہا اور آج بھی یہ منصوبہ تاخیر کا شکار ہے۔

3 اعشاریہ 9 کلومیٹر، 4 بس ا سٹیشنز، 18 بسیں اور اورنگی ٹاؤن آفس سے بورڈ آفس تک 2 ارب روپے کی لاگت سے یہ منصوبہ بننا تھا۔

جن 50 ہزار شہریوں کے لیے یہ منصوبہ 2017ء میں مکمل ہونا تھا، وہ 2021ء کے اختتام تک اس کا انتظار ہی کر رہے ہیں۔

ٹرانسپورٹ کے حوالے سے اورنگی ٹاؤن کے مکینوں کی مشکلات کا اندازہ لگانے کے لیے 70 سال کے صلاح الدین بابا کو دیکھنا کافی ہوگا۔

یہ بورڈ آفس پر اپنے دوست کے ساتھ بس کے انتظار میں کافی دیر تک کھڑے رہے، گھر جانے کے لیے پہلے رکشے میں بیٹھ کر بنارس آئے اور تب کہیں جاکر بس ملی۔

اورنگی ٹاؤن کے لیے سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے 1972 میں ڈھائی ہزار ایکڑ زمین مختص کی، پیپلز پارٹی سندھ میں 13 سال سے حکومت کر رہی ہے۔

لیکن سندھ حکومت کراچی کے اتنے بڑے علاقے کو ایک 3 اعشاریہ 9 کلومیٹر کی بس ریپڈ ٹرانسپورٹ سسٹم تو دور دو بسیں بھی نہ دے سکی۔

اس پر وزیر ٹرانسپورٹ کا موقف ہے کہ اورنج لائن کا ٹریک مکمل ہے، سندھ حکومت منصوبہ فعال کرنے کے لیے وفاق کو فنڈ دے چکی ہے۔

اویس قادر شاہ نے مزید کہا کہ وفاقی حکومت چاہے تو اورنج لائن ٹریک پر کل سے بسیں چلاسکتی ہے۔

گرین لائن بس منصوبے کے لیے بسیں کراچی پہنچ چکی ہیں اور سال کے آخر تک سرجانی سے گرومندر تک شہری اس میں سفر کرسکیں گے۔

ایسے میں اورنج لائن بس منصوبہ بھی مکمل ہوجائے تو اورنگی ٹاؤن کے لاکھوں شہریوں کو بھی سفر کی اچھی اور سستی سواری میسر آجائے گی۔

تازہ ترین