• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تحریر: سرفرازتبسم ۔۔۔لندن


کہتے ہیں زندگی میں جس چیز کی خواہش پورے من اور لگن سے کی جائے وہ آخر ایک دن پوری ہوہی جاتی ہے، 1990 ء کی دہائی اختتام پر تھی اکثر اوقات معروف سماجی ادبی شخصیت مرحوم اقبال غوری سے ادب و سیاست پر گفت و شنید رہتی تھی وہ اکثر ایک کتاب‘‘لوگوں کی انجیل‘‘اور مصنف ہریش میسی کا ذکر کیا کرتے تھے اس دور میں اس کتاب کا اتنا چرچا تھا کہ دل میں ایک خواہش پیدا ہوتی کہ ان سے ملاقات کی جائے اور پھرسوچا کرتا ناجانے کب ان سے ملاقات ہویا کبھی بات ہوسکے پھر میرے دوست جاوید عنایت کے وسیلہ سے خدا نے یہ معجزہ کردیا،گزشتہ سال ان سے گفتگو کا ایک سلسلہ شروع ہوا اور پھر انھوں نے اپنی دو کتابیں ’لوگوں کی انجیل، اور دوسرا افسانوی مجموعہ‘‘کاغذی دھوپ’’ مجھے مرحمت فرمائے۔ہریش میسی کا افسانوی مجموعہ‘‘کاغذی دھوپ‘‘کامطالعہ میرے لیے نہایت خوبصورت اور عمدہ تجربہ رہا جس کی کہانیاں معاشرتی ناہموار یوں پر پرُاثر دلالت کرتی ہیں یہ نہایت خوشگوار اظہاریہ ہوسکتا ہے کہ ہریش میسی نے اپنی کہانیوں کے کردار نبھانے کے لیے پرندوں، جانوروں اور بے جان چیزوں کو چُنا اوردل چسب بات یہ ہے کہ انھوں نے جانوروں اور پرندوں کی حیات اور خاندانی زندگی کی نفسیات کو ایسے بیان کیا ہے جیسے وہ اپنی کہانی خود بیان کررہے ہوں حد تو یہ ہے کہیں کہیں انھوں نے بے جان چیزوں کے کردار وں کی ادائیگی بھی ایسے کردی ہے جو بیان سے باہر ہے جہاں قاری محو حیرت میں کسی اور دنیا میں سانس لینے لگتاہے۔ جیسے ان کے افسانہ’’بے گناہ‘‘میں سانپ کے بچے اور انسان کے بچے کے درمیان محبت و دوستی کا تعلق نبھاتے ہوئے دکھایا گیا ہے جہاں قدرت کی اس عطا کو زیر بحث لایا گیا ہے جو قدرت کی طرف سے سانپ کے منہ میں زہر (جو سانپ کے لیے زندگی اور دوسروں کے لیے موت)کی صورت رکھ دیا گیا ہے اس افسانے کا عنوان’’بے گناہ‘‘رکھ کر مصنف نے قدرت کی فطری جبلت کو انسانی عدالت میں پیش کردیا ہے جس افسانے سے میں سب سے زیادہ متاثرہوا وہ افسانہ‘‘خدا’’ہے مجھے لگتا ہے اس افسانے کا نام خدا اس لیے رکھا گیا ہے کہ کائنات میں صرف ایک واحد خدا کی ذات ہے جو ہمیشہ رہنے والی ہے اس افسانہ میں کیکر سے کٹی ہوئی ایک ٹہنی کی زندگی کے نشیب و فراز کو بیان کیا گیا ہے دراصل کہانی میں تنور پر پڑی ایک لکڑی اپنی سرگزشت بیان کرتے ہوئے اپنی زندگی کے اُتار چڑھائو کا بہت فراخدلی سے اظہار کرتے ہوئے اپنی زندگی کا مقصد بیان کرتی ہےکہ’ فنا ہونا دراصل نئی تخلیق کو معرضُِ وجود میں لانا ہی تو ہے ‘‘کیونکہ وہ تنور میں جھونکے جانے کی منتظر ہے وہ ٹہنی زندگی کا دکھ جدائی بیان کرتے ہوئے بھی خوش ہے کیونکہ وہ جانتی ہے جل کر راکھ ہوجانے کے بعدوہ زندگی کے ازلی ارتقا کا حصّہ بن جائے گی کہ زندگی کی بقاء اسی موت سے جُڑی ہوئی ہے۔ اس افسانے میں واقعی موت بعد حیات کا فلسفہ بیان کردیا گیا ہے جو اپنے آپ میں زندگی کی طرف انتہائے عشق کی لاوازل داستان ہے اور یہ اس افسانوی مجموعہ کی غایتِ خاص بھی ہے۔اس افسانوی مجموعہ میں کل 10 مختصر کہانیاں ہیں ہر کہانی میں جانوروں پرندوں اور بے جان اشیاء کی زندگی کے مسائل کو بڑی کڑی نفسیات کے پس منظر میں دیکھا ہے ۔اس کتاب پر عصرِ حاضر کے کئی نامو ر ادیبوں نے بات کی ہے جن میں نامور افسانہ نگار شاعرو ادیب احمد ندیم قاسمی، معروف افسانہ نگار مرزاادیب ،یونس جاویداور ڈاکٹر کنول فیروز نے کتاب اور مصنّف کو سراہا ہے ، معروف افسانہ نگار مرزاادیب کہتے ہیں ہریش میسی کی کہانیاں نئی فکر نئے رویے نئے انداز کی کہانیاں ہیں سادہ مگر موثر مختصر لیکن اپنی معنویت میں مکمل،ان میں اپنا ایک الگ ذائقہ ہے اور کہانی پن بھی ہے انھوں نے کسی واقعے کو محض واقعہ نہیں رہنے دیا کہانی بنادیا ہے، نامور افسانہ نگار شاعرو ادیب احمد ندیم قاسمی کتاب کے فلیپ پر اپنے رائے میں کہتے‘‘ہریش میسی کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ اس نے ابابیل،کتے،الو،سانپ اور کوّیے وغیرہ کی زبان سے ایسی کہانیاں کہلوائی ہیں جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ شخص انسانی مزاج کی اندازہ دانی کے ساتھ ساتھ حیوانی نفسیات کی بھی حیرت ناک حد تک درست ترجمانی کررہا ہے میں ان افسانوں کے اس نہایت جدید اور نہایت مختلف مجموعہ کا خیر مقدم کرتا ہوں۔تو آخر میں میری خواہش اور ضرورت ہے کہ اسلوب ِ ہریش میسی میں مجھے مزید جانوروں ،پرندوں اورخاص طور پرخلقِ نباتات کی اور کہانیاں پڑھنے کو ملیں تاکہ میں سانسل لیتے ہوئے زندہ رہ سکوں ۔

تازہ ترین