• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

شاعروں کولاہور سے عجیب محبت ہے۔ کسی نے کہا: جس کو لاہور سے لگائو ہے۔اس کے سینے میں کوئی گھائو ہے‘‘کوئی بولا:وہ اگر شہر میں نہیں موجود،اس کے لاہور سے محبت کر‘‘کسی نے دعا کی : مرے لاہور پر بھی اک نظر کر، ترا مکہ رہے آباد مولا۔بہرحال یہ طے ہے کہ لاہور ایک رومان کا نام ہے۔ لاہور اپنی رت بدلتا ہے مگرپھولوں سے مہکتا رہتا ہے۔وہ لوگ جو لاہور کے پرانے دوست ہیں۔ وہ مال روڈکے رومانس جانتے ہیں۔ میں جوانی میںباغ جناح کے درختوں سے بہت ہمکلا م ہوا۔ مجھے کبھی کبھی پورا لاہورباغ جناح لگتا ہے۔ مال روڈ پر تو قدم رکھتے ہی درختوں کی شاخوں کے جھولتے سائے کانوں میں سرگوشیاں کرنے لگتے ہیں، تم باغ جناح میں داخل ہوچکے ہو۔ مجھے مال روڈ باغ جناح کا جاگنگ ٹریک لگتاہے۔ مال روڈ پر میں نےکئی محبتیں کیں جو اب طاقِ نسیاں میں پڑی ہیں مگر مال روڈ کا عشق ابھی تک سرچڑھ کر بول رہا ہے۔ اب بھی کسی دن بے وجہ دل بھر آئے تومال روڈ کے فٹ پاتھ پر چل پڑتا ہوں۔ یقین کیجئے اکثر مال روڈ مجھے باطنی روشنیوں اور خوشبوئوں سے لبریز کردیتا ہے۔

یہ باتیں سایہ ِ گل میں بیٹھ کرکسی کو یاد کرنے والی باتیں ہیں، جہاں فطرت کی خوبصورتی محسوس ہوتی ہے۔ اطمینان، آرام، چین اور سکون در باز ہوتے ہیں، مگر ان سب میں ایک اہم ترین شے شہر ِلاہورمیں تحفظ کا احساس ہے۔ یعنی سیفٹی کا فیکٹرہے۔میں اکثر اوقات آدھی رات کو دفتر سے پیدل چلتا ہوا بیڈن روڈ تک جاتا ہوں وہاں سے لکشمی چوک جانکلتا ہوں جہاں رات کے آخری پہر تک زندگی جاگ رہی ہوتی ہے۔ کوئی خطرناک خیال دماغ میں نہیں آتا۔شاید اسلئے کہ ہم ایک مستقل تحفظ کے عادی ہوچکے ہیں۔ کراچی جس کے حالات اب کافی بہتر ہو چکے ہیں، پچھلے دنوں وہاں سے ایک دوست آیا۔ مچھلی کا ذکر ہوا تو کہنے لگا :’’ر‘‘ والا مہینہ یعنی ستمبر شروع ہوچکا ہے مگر ابھی تک مچھلی نہیں کھائی، میں اسے مچھلی کھلانے قصور لے گیا۔ قصور پہنچتے ہی میں نے ایک ضروری فون سننے کےلئےگاڑی سائڈ پر لگا لی۔ ابھی چند لمحے ہی گزرے تھے کہ پیچھے ایک موٹر سائیکل آ کر رکی اور موٹرسائیکل سوار تیزی سے نیچے اترا، ان چند سیکنڈوں میں میرے دوست کی حالت بری ہوگئی اور وہ کہنے لگے کہ لو بھائی موبائل تو گیا۔ خیر موٹر سائیکل سوار نے اترتے ہی اپنی بائیک کو نیچے لٹایا اور پھر دوبارہ بائیک کھڑی کی، کک ماری اور چلتا بنا۔ اتنی سی دیر میں میرے دوست کی جو حالت ہوئی تو اسے دیکھ کرمجھے پنجاب میں عوام کو میسر تحفظ کا بھرپوراحساس ہوا۔ میں نے اس کو تسلی دی اور سمجھایا کہ یہ کراچی نہیں قصور ہے، سیف سٹی پروجیکٹ کے تحت یہاں بھی کیمرے لگے ہیں،کوئی بھی واردات اب پولیس سے اوجھل نہیں رہ سکتی۔ وزیر اعلیٰ پنجاب نے لاہور سمیت پورے پنجاب کی سیکورٹی بہتر بنانے کیلئے پولیس کی کیپسٹی بلڈنگ پر بہت کام کیا ہے۔ میں جب اسےیہ بتا رہا تھا کہ پنجاب کتنا محفوظ ہے تو مجھے اس کے چہرے پرکراچی اور سندھ کادکھ ابھرتا ہوا محسوس ہوا۔

عثمان بزدارنے پنجاب میں پچھلے 3 برسوں میں جتنا کام کرایا ہے اگر اس کا ایک چوتھائی وزیر اعلیٰ سندھ اپنے صوبے میں کرادیتا تو لوگ اسے کندھوں پر اٹھا لیتے۔وہاں کنٹونمنٹ الیکشن میں پی ٹی آئی کو لوگوں نے پوچھنا تک نہ تھا۔کراچی اورسندھ میں عوام ترقی اور خوشحالی سے اتنےمحروم ہیں کہ چھوٹی سی کاوش پر خوش ہوجاتے ہیں مگرپنجاب کے لوگوں کو چھوٹی موٹی ترقی یا منصوبوں سے بہلانا ممکن نہیں اور یہی وجہ ہے کہ پنجاب میں ترقی کی رفتار کو ٹربو انجن لگادیا گیا ہے، میگا منصوبوں کا آغاز ہوا ہے اور ان کی جلد تکمیل کیلئے عثمان بزداربھرپورفارم میں ہیں اور اس ترقی کے ثمرات نظر بھی آرہے ہیں۔عثمان بزدارتمام فرنٹس پر متحرک دکھائی دیتے ہیں۔ سرپرائز وزٹس کا سلسلہ بھی جاری ہے، کل ہی کی بات ہے کہ وہ گلاب دیوی انڈرپاس کے منصوبے کا جائزہ لینے پہنچے، گلاب دیوی انڈرپاس اور لاہور برج پونے دو ارب روپے کی لاگت سے مکمل ہوں گے۔ ایسے منصوبوں کی وجہ سے فیول کی مد میں سالانہ کروڑوں روپے کی بچت ہوگی، اس کے ساتھ ساتھ اس ماحول دوست اقدام سے ٹریفک کا زور بھی ٹوٹے گا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ وزیر اعلیٰ کےدورے کی وجہ سے نہ میٹرو بس سروس معطل ہوئی اور نہ کوئی پروٹوکول کا مسئلہ ہوا۔بے شک لیڈر ڈیلیور کرنے کے بعد جب عوام میں جاتا ہے تو لوگ بھرپور انداز میں اسکا خیرمقدم کرتے ہیں۔

اگر سافٹ ریفارمز اور نوجوانوں کے حوالے سے بات کی جائے تو عثمان بزدارپہلے وزیر اعلیٰ ہیں جو تعلیمی سرگرمیوں کے علاوہ کھیلوں کے فروغ میں بھی بھرپور دلچسپی لے رہے ہیں۔ آئے روزا سپورٹس کے ستاروں کو اپنے دفتر میں مدعو کرتے ہیں، ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں اور انعامات دئیے جاتے ہیں۔ آج ہی انہوں نے ٹوکیو پیرا اولمپکس کے گولڈ میڈلسٹ حیدر علی کو وزیر اعلیٰ آفس میں 25 لاکھ روپے انعام دیا اور ان کو قوم کا فخر سمجھتے ہوئے ملک کا نام مزید روشن کرنے کیلئے موٹیویٹ کیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ایسے لوگ چراغ لے کر تلاش کرنے پڑتے ہیں۔ بہر حال

یہ جو لاہور سے محبت ہے

یہ کسی اور سے نہیں ممکن

تازہ ترین