منشیات کی بیخ کنی کے لیے متعدد محکمے موجود ہیں لیکن اس برائی کو جڑ سے اکھاڑنے کی کسی نے بھی سنجیدگی سے کوشش نہیں کی، جس کی وجہ سے یہ برائی پورے ملک میں پھیل گئی ہے۔ اداروں کی جانب سے بلند وبانگ دعوے کیے جاتے ہیں، لیکن اس کا خاتمہ اس لیے نہ ہوسکا، کیوں کہ اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے افراد بھی اس برائی کو پھیلانے میں ملوث ہیں۔
ایس ایس پی شہید بے نظیر آباد امیر سعود مگسی نے بتایا ہےکہ پولیس نے منشیات کے خلاف کریک ڈاؤن میں بڑی مقدار میں چرس اور نشہ آور گٹکا مین پوری،ماوہ اور اس کو تیار کرنے والا مٹیریل پکڑا ہے ۔ان کا کہنا تھا کہ گٹکا مین پوری تیار کرنے والا مٹیریل ملتان سے سندھ بھیجا جارہا تھا جہاں دیہات اور شہروں میں اس کو تیار اور پیکنگ کرنے کے گھروں میں یونٹ قائم ہیں ۔
ان کا کہنا تھا کہ پولیس نےایک اور اطلاع پر دولت پور میں کوئٹہ سے کراچی جانے والے ٹرک پر چھاپہ مارا تو اس میں چرس کے پیکٹس جن کا وزن سات من بارہ کلو نوسو گرام تھا برآمد کرکے ایک ملزم کو گرفتار کرلیا۔
انہوں نےنمائندہ جنگ کو بتایا کہ پولیس تفتیش کررہی ہے کہ ملتان کی کون سی بااثر شخصیات اس مذموم کاروبار کی پشت پناہی کرتی ہیں،تا کہ ان کے خلاف کارروائی کی جائے۔ تاہم پولیس کی جانب سے منشیات فروشوں کے خلاف کارروائی کے بلند وبانگ دعوؤں کے باوجود نشہ آور گٹکا، پان پراگ، زیڈ اکیس، رتنا اور ماوہ کے علاوہ چرس ،افیون اور ہیروئن کی فروخت جاری ہے اور گلی محلوں کی دکانوں پر باآسانی دستیاب ہے ۔
اس سلسلے میں ممتاز قانون دان نعیم منگی ایڈووکیٹ کا کہنا ہے پولیس منشیات پکڑنے کے بعد اپنی تحویل میں کیوں رکھتی ہے، تلف کیوں نہیں کرتی۔ ان کا کہنا تھا کہ منشیات برآمدگی کا کوئی ریکارڈ مرتب نہیں کیا جاتا جس کی وجہ سےکمزور کیس بنتاہے جو چند پیشیوں میں ہی خارج ہوجاتا ہے اور ملزمان باعزت بری ہوجاتے ہیں۔
یہ بھی لمحہ فکریہ ہے کہ خیبر پختون خواہ کے دور افتادہ علاقوں سےکراچی تک درجنوں چیک پوسٹس ہیں، لیکن اس کے باوجود منشیات کی بین الصوبائی اسمگلنگ جاری ہے ۔منشیات کی اسمگلنگ کے ذمہ داروں کے خلاف سخت ترین قانون بنانے اور بڑی مچھلیوں پر ہاتھ ڈالنے کی ضرورت ہے۔