• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اِس بار ستمبر کا مہینہ روحانیت کی فضاؤں میں رچا رہا، قدرت نے ٹوٹے ہوئے دِلوں اور روٹھے ہوئے موسموں کی دعا سن لی، ہر طرف نور کی شمعیں روشن رہیں، زندگی ان روحانی کرنوں کے ساتھ رقصاں رہی جو نئی زندگی کی رمق لے کر آئی تھیں۔ عظیم صوفیوں کے عرس بہت خوش اسلوبی اور شان و شوکت سے منعقد ہوئے۔ ایک عرصے سے وبا کی قید و بند میں حبس کا شکار دل صوفیوں کے عرس کا ڈھول سن کر جھومتے ہوئے دما دم مست قلندر کی تال پر زمین اور آسمان کے درمیان ربط بن کر خوشبو کی طرح پھیلے تو بہار بن گئے۔ وارث شاہؒ، بلھے شاہؒ اور حضرت علی ہجویری المعروف داتا گنج بخشؒ کے عرس مرجھائے ہوئے دلوں کے لئے خوشی اور شادمانی کا سندیسہ لے کر آئے۔ وارث شاہؒ کے عرس میں حاضری کا شرف حاصل ہوا۔ ہر طرف انسانوں کا ہجوم لیکن پُرامن۔ رات گئے تک دور دور سے لوگوں کی ٹولیاں پیدل چلی آ رہی تھیں یہی عرس کی سب سے بڑی پہچان ہوتی ہے کہ وہاں ہر طبقے کے لوگ اپنے من کی مرادیں پانے کے لئے آتے ہیں، من کی ان مُرادوں کا تعلق کسی نفع نقصان سے نہیں بلکہ روح کی طمانیت سے ہوتا ہے۔ یہ سب لوگ ہیر سننے کے لئے آ رہے تھے، ہیر ایک ایسی تخلیق ہے جو جمالیاتی احساسات کا مرقع ہے، جو روحانیت کی شمع ہے، جو سماجی رویوں کی سیریل ہے، جو معاشرتی نظام کا خاکہ ہے، ہیر وارث شاہؒ سے لوگوں کی محبت لافانی ہے، یہ داستان دلوں میں رچی ہوئی ہے کیونکہ اس کا خمیر زمین سے اُٹھا ہے اور زمین کی جڑت دل تک ہوتی ہے۔ اس بظاہر رومانی داستان میں زندگی سے جُڑے تمام مسئلے بیان ہوئے ہیں، مادی اور روحانی طاقتوں کی کشش میں جکڑا وجود تپسیا کرتے کرتے اس محبوب تک پہنچتا ہے جو اسے مکمل کرتا ہے، جو اسے زندگی کے اصل رُخ سے آشنا کرتا ہے۔ دربار کے وسیع احاطے میں جگہ جگہ ٹولیاں بنی ہوئی تھیں۔ ہیر پڑھنے والوں نے سب کو اپنے حصار میں لے رکھا تھا۔ کہیں تحت اللفظ میں ہیر پڑھی جا رہی تھی اور کہیں گا کر لیکن سماں ایک ہی تھا، وجد کا عالم تھا، کہیں دھمال ڈالی جا رہی تھیں، کہیں ڈھول اور بھنگڑا تھا، وہ وجد جو وارث شاہؒ کے لافانی لفظوں سے روحوں کو سرشار کرتا ہے اس کو ڈھول کی لَے کے ساتھ جوڑ کر وجود کو طمانیت کی اعلیٰ منزل کی طرف لے جایا جا رہا تھا۔ انسان کائنات کی سب سے عظیم تخلیق ہے۔ میں بارہا اپنے قارئین سے تذکرہ کر چکی ہوں کہ انسان فرشتہ نہیں ہے، اس کے اندر جو خصوصیات رکھی گئی ہیں ان کا اظہار اور کتھارسز بہت ضروری ہے اور عرس دراصل ثقافتی میلہ بھی ہوتا ہے جس میں ثقافت کے رنگ بکھرتے ہیں، کھانے پینے کے علاوہ مختلف اسٹال لگتے ہیں۔ یہ عرس کا معاشی پہلو بھی ہے لیکن اس کا اصل مقصد عشق ہے، محبت ہے اور جب عشق و محبت کی بات کی جاتی ہے تو پھر احساس کی بات ہوتی ہے، اظہار کی بات ہوتی ہے۔

ہمارے صوفیاء کے دربار ہمیشہ سے فرقہ پرستی سے دور رہے ہیں۔ یہاں انسانی قدروں کی عملی ترویج ہوتی رہی ہے۔ یہ تبلیغ کا مرکز کبھی نہیں بنے لیکن وہ وارث شاہؒ جو پنجاب کی روایتی حسین عورت کو موضوع بنا کر انسانیت، عشق اور وحدت کی بات کرتا ہے اس کے دربار پر کوئی عورت نہیں تھی مختلف مذہبی جماعتوں کے نعرے بھی شدید حیرت کا باعث بنے۔ یہ دیکھ کر دُکھ ہوا کہ ہم نے آزاد منش صوفیوں کے درباروں پر بھی اپنی اجارہ داری قائم کرنی شروع کر دی ہے۔ وہ جو انسانیت کے مبلغ تھے انہیں فرقوں میں بانٹنا شروع کر دیا ہے، ان پر اپنی سوچ لاگو کرنے کی حکمت عملی اپنا لی ہے، ہر کوئی انہیں اپنے فرقے اور سوچ کے مطابق ڈھالنا چاہتا ہے۔ صوفی ثقافتی ہیرو ہے خدا کے لئے اس کے عرس کو ثقافت سے ہم آہنگ رہنے دیجئے۔ اسے مذہبی معاملات اور فرقہ بندی کا محور نہ بنائیے۔ یہ دکھی دلوں اور روحوں کی آماجگاہ ہیں۔ یہاں نفرت کو پنپنے نہ دیں۔ ڈی سی او شیخوپورہ اور پنجاب پولیس نے اس تمام معاملے میں بھرپور تعاون کا مظاہرہ کیا لیکن لوگوں کے اندر جو شعور، ذمہ داری اور جذبہ دیکھا وہ ان کی وارث شاہؒ سے محبت، زمینی دانش سے جڑت اور روحانیت و ثقافت کا علمبردار تھا۔ اتنے لوگوں کی موجودگی کے باعث وہاں کسی قسم کے لڑائی جھگڑے، پریشانی کا کوئی واقعہ نہیں ہوا۔ یہ انسانوں کے مل بیٹھنے کی جگہ، دکھ سکھ بانٹنے کی جگہ، روحانی سرشاری کی جگہ، سکون اور امن کی علامت ہونی چاہئے۔ اسے سیاسی، مذہبی اور دیگر نعروں سے آزاد ہونا چاہئے۔ حکومتِ وقت سے گزارش ہے کہ صوفیوں کے درباروں پر ہونے والے عرس کے ثقافتی رنگ بحال کئے جائیں۔

تازہ ترین