• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ)

انگریزوں نے لاہور میں واقع تمام ریلوے اسٹیشنوں پر آج سے ڈیڑھ سو برس قبل ایسے آلات، مشینری اور کمیونیکیشن کا ایسا اعلیٰ نظام لگایا تھا جو آج تک کام کر رہا ہے۔ ریلوے کے بعض اسٹیشن ماسٹروں کے بقول یہ نظام مزید سو برس تک کام کر سکتا ہے۔ اس نظام میں آج تک کوئی خرابی نہیں آئی، ہم نے اس طرح کا نظام چلانے والی مشین رائے ونڈ اسٹیشن پر دیکھی، جو پچھلے سو برس سے کام کر رہی ہے، کیا زبردست مشین ہے۔ اس کو نیل بار ٹوکن مشین کہتے ہیں۔ تقریباً 2فٹ چوڑائی کی لوہے کی یہ اچھی خاصی بھاری مشین ہے، جو کبھی لاہور کے تمام ریلوےا سٹیشنوں پر ہوا کرتی تھی۔ اب صرف چند ایک ریلوے اسٹیشنوں پر رہ گئی ہے البتہ رائے ونڈ اسٹیشن جسے جنکشن اسٹیشن بھی کہتے ہیں وہاں آج بھی پوری طرح اور درست انداز میں کام کر رہی ہے اور گاڑیوں کی آمدورفت کے نظام کو احسن انداز میں چلا رہی ہے۔

آیئے لاہور کی پہچان بزرگانِ دین اور اولیا ئےکرام کے عرس اور میلوں کا ذکر بھی کریں جو ہم نے اپنے بچپن اور جوانی کے دور میں دیکھے تھے۔ لاہور میں پورا سال ہی کسی نہ کسی ولی اور اللہ کے نیک بندے کا عرس جاری رہتا ہے۔ لاہور سچ میں میلوںکا شہر ہے۔ کھابوں اور خوابوں کا شہر ہے۔ اس شہر کا شاہی محلہ ایک تاریخ رکھتا ہے، کبھی اس شاہی محلے کے بارے میں بھی بتائیں گے۔ کاش اس شہر کے لاہوری حکمراںاس کا حسن نہ برباد کرتے۔ سکھوں کے بعد شہر کا سب سے زیادہ تہذیبی، تاریخی اور روایتی حسن انہی حکمرانوں نے خراب کیا۔ آتے ہیں اپنی بات کی طرف، نیل بار ٹوکن انسٹرومنٹ کو ہم نے رائے ونڈ اسٹیشن پر کام کرتے ہوئے دیکھا۔ بڑی حیرت ہوئی کہ آج بھی اس مشین کو اس کے اسٹیشن ماسٹر پوری طرح چلا رہے تھے۔ اس مشین پر بینڈ باجے کی طرح ایک انسٹرومنٹ لگا ہوا ہے، جب ریل گاڑی ایک اسٹیشن سے روانہ ہوتی ہے تو اسٹیشن ماسٹر اس کے ہینڈل کو ایک مخصوص انداز میں گھماتا ہے جس سے دوسرے ریلوے اسٹیشن پر گھنٹی بجتی ہےتو وہ ہینڈل کے اوپر والے انسٹرونمنٹ کو دباتا ہے پھر پہلے والے ہینڈل کو گھماتا ہے، تو اس میں سے ایک لوہے کا گولا باہر آتا ہے، جو انجن ڈرائیور کو دے دیا جاتا ہے، یہ اس کا اجازت نامہ ہے کہ وہ اگلے ریلوے اسٹیشن پر ٹرین لے جا سکتا ہے۔ اس طرح کی مشین اب قصور سے رائے ونڈ ریلوے اسٹیشن تک رہ گئی ہے۔ ایک اور طریقہ بھی گاڑی کو کلیئر کرنے کا ہے وہ بڑا دلچسپ انداز ہے جوبعد میں بیان کریں گے۔ بہرحال رائے ونڈ ریلوے اسٹیشن غیر معمولی تاریخی اہمیت کا ہے۔

2022ء تک اس تاریخی ریلوے اسٹیشن کے کئی قدیم خوبصورت آلات، مشینری، سگنل اور کانٹا تبدیل کرنے کا نظام ختم کر دیا جائے گا۔ اس کا تاریخی کیبن روم جو پورے لاہور میں اپنی نوعیت کا آخری کیبن روم ہے وہ بھی ختم ہو جائے گا۔ اس سال اور آئندہ دو برسوں میں لاہور کے کئی تاریخی اسٹیشن بھی صرف فلیگ اسٹیشن رہ جائیں گے۔ جہاں اسٹیشن ماسٹر گرین رنگ کی جھنڈی ہلایا کرے گا۔ ہم نے لاہور کے تمام تاریخی ریلوے اسٹیشنوں کا ذکر کر دیا۔ اب صرف لاہور کے بڑے اسٹیشن اور یہاں پر بننے والی تاریخی فلم بھوانی جنکشن کا ذکر رہ گیا ہے، جو آئندہ کریں گے۔ اس تاریخی برج (پل) کا بھی بتائیں گے، جو گرا دیا گیا تھا۔ آج ہم آپ کو لاہور کی اصل ٹھنڈی سڑک سندرداس روڈ اور اس سے ملحقہ پی ایل ایچ (پنجاب لائٹ ہائوس) (جسے اب زمان پارک کہتے ہیں) کا کچھ ماضی اور آج کا احوال بیان کریں گے اور سر گنگارام کے بسائے ہوئے علاقے ماڈل ٹائون کی قدیم کوٹھیوں کا ذکر کریں گے۔ ماڈل ٹائون لاہور میں اب بھی ماضی کی ایک ایسی خوبصورت کوٹھی ہے جو اپنی اصل حالت میں آج بھی موجود ہے، اس میں چار نسلیں رہ رہی ہیں۔ یہ کوٹھی ڈاکٹر محمد ایوب خاں مرحوم (آرتھوپیڈک سرجن) کی ہے جو یہاں 1922 میں آئے تھے، پھر ان کے بیٹے پروفیسر ڈاکٹر جواد ساجد خاں (معروف ہارٹ سرجن) ان کے بیٹے ڈاکٹر ممریز نقشبند (آرتھوپیڈک سرجن) اپنے والد اور بچوں کے ساتھ رہائش پذیر ہیں، غالباً یہ پورے ماڈل ٹائون کی واحد کوٹھی ہے جو آج بھی اپنے اصل تعمیراتی حسن کے ساتھ برقرار ہے۔ ماڈل ٹائون بڑا خوبصورت علاقہ ہے۔ سر گنگا رام کو لاہوریئے فادر آف لاہور کہتے ہیں۔ چلیں کچھ ذکر زمان پارک کا ہو جائے۔ زمان پارک کا اصل نام پی ایل ایچ پریڈ گرائونڈ ہے۔ 1936میں اس کا نام سندر داس پارک رکھ دیا گیا تھا۔ 1947تک لاہوریئے اس علاقے کو سندرداس پارک کے نام ہی سے جانتے رہے۔ اس علاقے کو کبھی پنجاب لائٹ ہائوس بھی کہا جاتا تھا اور کبھی یہ ایچیسن کالج کا بھی حصہ تھا۔ اس علاقے کی سب سے بڑی خوبی یہ ہےکہ یہاں کسی زمانے میں پندرہ سے زائد بہت بڑے گھر تھے جو سب کے سب ہندووں کے تھے آج بھی یہ خوبصورت کوٹھیاں موجود ہیں، جو بہت قدیم ہیں بلکہ ہندو اوقاف (متروکہ پراپرٹی بورڈ) کے چیئرمین کا سرکاری گھر آج بھی اپنی اصل حالت میں موجود ہے جو کہ بہت بڑا گھر ہے بلکہ محل ہے۔ 1947ء میں جنرل برکی نے یہاں جالندھر کے پٹھانوں کو آباد کیا تو خاندان کے کسی بڑے کے نام پر اس کا نام زمان پارک رکھ دیا گیا جو آج تک مشہور ہے۔ یہ بڑا خوبصورت علاقہ ہے جو آج بھی بہت حد تک اپنی اصل شکل و صورت میں ہے۔ سندر داس ایک ہندو خاندان تھا، یہاں صرف بہت امیر ہندو رہا کرتے تھے۔ اصل سندرداس پارک کے درمیان گرائونڈ ہے اور اس کے اردگرد محل نما کوٹھیاں ہیں جہاں کبھی جاوید برکی، ماجد خان اور عمران خان کرکٹ کھیلتے رہے ہیں۔ (جاری ہے)

تازہ ترین