• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اللہ تعالیٰ کی قدرت کا ایک عظیم شاہ کارانسانی جسم ہے،جس کے اہم اعضاء میں آنکھیں سرِفہرست ہیں۔ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ خارجی دُنیا سے ہمارے ہر تعلق کی ابتدا آنکھ ہی کے ذریعے ہوتی ہے۔اگر ہم کچھ دیر کے لیےآنکھیں بند کرکے چشمِ تصور سے آس پاس کی دُنیا دیکھیں، تو سوائے تاریکی کے کچھ نظر نہیں آئے گا۔ بینائی کی اسی اہمیت کو اُجاگر کرنے کے لیےعالمی ادارۂ صحت کے زیرِ اہتمام دُنیا بَھر میں اکتوبر کی دوسری جمعرات کو ایک تھیم منتخب کرکے ’’بصارت کا عالمی یوم‘‘منایا جاتا ہے۔

اس سال یہ دِن 14اکتوبر کو جس سلوگن کے ساتھ منایا جارہا ہے، وہ ہے "Love Your Eyes"۔ ایک اندازے کے مطابق فی الوقت دُنیا بَھر میں تقریباً تیس کروڑ ساٹھ لاکھ افراد اندھے پَن کا شکار ہیں۔ صحت کے ایک جریدے (Lancet Global Health) میں شایع شدہ ایک رپورٹ میں خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ اگر بینائی سے متعلق مختلف عوارض کی برقت تشخیص اور درست علاج نہ کیا گیا، تو خدشہ ہے کہ 2050 ء تک دُنیا بَھرمیں اندھے پَن کے شکار افراد کی تعداد ایک ارب پندرہ کروڑ سے تجاوز کر جائے گی ۔

واضح رہے،امراضِ چشم کےمریضوں کی تعداد کے اعتبار سےپاکستان دُنیا کا تیسرا بڑا مُلک ہے کہ ہمارے یہاں دو کروڑ سے زائد افراد بصارت کی کم زوری یا نابینا پَن کا شکار ہیں،جن میں تیس لاکھ بچّے بھی شامل ہیں،جب کہ ان مریضوں میں سے 80فی صدموتیا کے مرض میں مبتلا ہیں۔حالاں کہ بذریعہ سرجری موتیے کے مریضوں کی بینائی بحال ہوسکتی ہے، مگر اکثریت وسائل کی کمی، آپریشن کی سہولت مہیّا نہ ہونے یا پھر علاج میں تاخیر کی وجہ سے بینائی سے مکمل طور پر محروم ہو کر ایک تکلیف دہ زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ ہمارے یہاں آنکھوں کے کئی امراض ایسے ہیں، جو محض آگہی نہ ہونے کی وجہ سے بصارت کی کم زوری یا بصارت کے ضائع ہونے کا باعث بن رہے ہیں۔ ذیل میں چند ایسے ہی امراضِ چشم اور کچھ عوامل سے متعلق معلومات درج کی جارہی ہیں، جو بصارت کی کم زوری یا اندھے پَن کا سبب بنتے ہیں۔

سفید اور کالا موتیا : موتیا ہر عُمر کے افراد کو ہوسکتا ہے، لیکن بالعموم بڑی عُمر میں زیادہ ہوتا ہے۔ بعض افراد میں موتیا موروثی طور پربھی ہو سکتاہے۔سفید موتیے میں آنکھوں کے لینس میں گدلا پَن آجاتاہے، جس کی وجہ سے آنکھ کے اندر روشنی مکمل طور پر روشنی نہیں پہنچ پاتی اور بینائی اس حد تک کم ہوتی چلی جاتی ہے کہ افراد اور اشیاء واضح طور پر دکھائی نہیں دیتے۔ یہ سفید موتیا کا آخری مرحلہ کہلاتا ہے۔تاہم، سفید موتیے کی ایک قسم میں بینائی مکمل طور پر نہیں جاتی۔ 

سفید موتیے سے نجات کے لیے بذریعہ آپریشن آنکھ کی جھلّی نکال کر اس کی جگہ مصنوعی لینس لگادیا جاتا ہے، تاکہ معمول کے مطابق زندگی بسر کی جاسکے۔ کالے موتیے کوطبّی اصطلاح میںGlaucoma کہتے ہیں۔ یہ مرض اندھے پَن کا بھی سبب بن سکتا ہے، کیوں کہ بعض اوقات مریض اپنے مرض سے لاعلم رہتے ہیں اور جب معالج سے رابطہ کیا جاتا ہے تو اُس وقت تک مرض قابلِ علاج نہیں رہتا کہ اگر ایک بار بینائی چلی جائے،تو دوبارہ بحال نہیں ہوسکتی۔ 

کالا موتیا خطرناک بیماری ہے، جس کے علاج میں ہرگز کوتاہی نہ برتی جائے۔ یہ کہنا کہ اگر سفید موتیا پُرانا ہوجائے، تو کالےموتیے میں تبدیل ہو جاتا ہے، بالکل غلط ہے۔ کالے موتیے کا کام یاب علاج بروقت تشخیص ہی سے ممکن ہے۔بہتر تو یہی ہے کہ چالیس سال سے زائد عُمر کے افراد،خصوصاً جن کی فیملی ہسٹری میں یہ مرض شامل ہو، اپنی آنکھوں کا سالانہ معائنہ کروائیں۔علاوہ ازیں،کالے موتیا کا علاج ادویہ کے ذریعے بھی کیا جاتاہے۔

آشوبِ چشم : آشوبِ چشم میں آنکھ کی سامنے والی جھلّی متاثر ہوکر انفیکشن کا شکار ہو جاتی ہے۔اس کی علامات میں آنکھوں سے پانی بہنا، آنکھیں متوّرم ہوجانااور آنکھ میں کچرا یا مٹّی چلے جانے جیسی چبھن کا احساس وغیرہ شامل ہیں۔ بعض اوقات سو کر اُٹھنے کے بعد پپوٹے آپس میں چپک جاتے ہیں۔ ایسے مریضوں کے زیرِاستعمال اشیاء جیسے تولیا، رومال وغیرہ الگ کرلیں تاکہ دوسرے افراد اس کا شکار نہ ہوں۔

ذیابطیس اور آنکھیں: ذیابطیس کا مرض جسم کے کئی اعضاء متاثر کرتا ہے، جن میں آنکھیں بھی شامل ہیں۔ واضح رہے،ذیا بطیس کے مریض بہت جلد موتیا کا شکار ہوجاتے ہیں۔ ایک تحقیق کے مطابق اندھے پَن کے پچاس فی صد مریضوں میں ذیابطیس ہی بینائی سے محرومی کا سبب بنتی ہے، لہٰذا ذیابطیس کے شکار افراد باقاعدگی سے آنکھوں کا معائنہ کروائیں۔

شب کوری: اس مرض میں عام طور پر اندھیرے اور کم روشنی میں نظر نہیں آتا، جس کی وجہ آنکھ کے اندرونی پردے کی خرابی ہے۔شب کوری کا تعلق موروثیت سے ہوبھی سکتا ہے اور نہیں بھی۔ تاہم، یہ ایک ناقابلِ علاج مرض ہے،جو بتدریج بڑھتا ہی چلا جاتا ہے۔

موبائل فون، ٹیبلیٹ اور کمپیوٹر زائد کا استعمال: فی زمانہ آن لائن کلاسز یا دفتری امور کی انجام دہی کے لیے کمپیوٹر، لیپ ٹاپ، موبائل اور ٹیبلیٹ وغیرہ کا استعمال ضروری ہوگیا ہے، تو آنکھوں کو ان کے مضر اثرات سے بچانے کے لیے کمپیوٹر استعمال کرنے کے دوران ہر 15منٹ بعد کچھ سیکنڈز کے لیے آنکھیں اسکرین سے ہٹالی جائیں،کیوں کہ مستقل طور پر اسکرین پر نظر جمانے سے آنکھیں تھکاوٹ کاشکار ہوجاتی ہیں اور مزاج میں بھی چڑچڑا پَن پیداہوتا ہے۔

واضح رہے، موبائل فونز کا بڑھتا ہوا استعمال تمام افراد بالخصوص نوجوانوں اور بچّوں میں بینائی کم زور ہونے کی متعدّد وجوہ میں سرفہرست ہے،لہٰذا موبائل فون کا استعمال صرف ضرورت کی حد تک کیا جائے۔اس طرح ایئرکنڈیشنڈ کمرے بھی آنکھوں کے پردے خشک کرنے کا سبب بنتے ہیں، تو کوشش کریں کہ مستقل طور پرایئرکنڈیشنڈ ماحول میں نہ رہا جائے۔

کانٹیکٹ لینسز : بطور فیشن یا بینائی کی کم زوری کی وجہ سےکانٹیکٹ لینسز کا استعمال بہت عام ہو چُکاہے۔لیکن اس ضمن میں بعض باتوں کا خاص خیال رکھنا لازم ہے۔ مثلاً کانٹیکٹ لینسز ہمیشہ معیاری کمپنی کے استعمال کریں۔لینسز لگاتے یا اُتارتے ہوئے ہاتھ اچھی طرح دھو لیں۔ انہیں ان کے مخصوص سلوشن میں رکھیں اور ہر تین دِن بعد یہ سلوشن تبدیل کرلیں۔لینسز اُتار کر سوئیں۔

 معیاد ختم ہونے کا بھی خاص خیال رکھا جائے۔ لینسز لگانے کے دوران آنکھوں میں کسی قسم کی دوا نہ ڈالیں، اگر آنکھیں سُرخی مائل ہوں یا ان سے رطوبت یا پانی خارج ہورہا ہو تو لینسزلگانے سےگریز کریں۔اگر لینسز لگانے کے بعد چُبھن یا تکلیف محسوس ہو تو فوراً اُتاردیں، تاکہ انفیکشن کی شکایت نہ ہو اور فوری طور پرمعالج سے رابطہ کرلیں۔

اس کے علاوہ موٹر سائیکل سوار لازماً ہیلمٹ کا استعمال کریں۔ اگر ہیلمٹ کے سامنے اسکرین نہ ہو تو چشمہ لگالیں۔ اصل میں موٹر سائیکل چلاتے ہوئے مستقل طور پر ہوا لگنے سے آنکھیں خشک ہونے لگتی ہے،جب کہ کچرے کے ذرّات جانے سے آنکھوں میں انفیکشن بھی ہوسکتا ہے،جوخطرناک ثابت ہوتاہے۔

یہاں اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ جو بھی غذا بنیادی طورپر ہماری صحت کے لیے اچھی ہے، وہ بینائی کے لیے بھی فائدہ مند ثابت ہوتی ہے ، جیسےتازہ سبزیاں، دودھ اوروٹامن سے بَھرپور غذائیں جسم کو توانائی پہنچاتی ہیں ،تو بینائی کی حفاظت کے لیےبھی مفیدہیں ۔ (مضمون نگار،معروف ماہرِامراضِ چشم ہیں۔ انہوں نے برطانیہ سےآپتھولومولوجی میں فیلو شپ کی، ڈاؤ یونی ورسٹی آف ہیلتھ سائنسز،کراچی میں ایسوسی ایٹ پروفیسر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ نیز، پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن(پیما) کے مرکزی صدر بھی رہے)

تازہ ترین