سابق چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی نے کہا ہے کہ پنڈورا پیپرز پر تحقیقات حاضر سروس ججز سے عدالتی فورم پر کرائی جائے، حاضر سروس ججز ہی اس معاملے پر قانون کے مطابق آگے بڑھیں گے، وفاقی حکومت کا پنڈورا پیپرز تحقیقاتی سیل کا اعلان اپنے دوستوں کے تحفظ کیلئے ہے۔
پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما و سینیٹر رضا ربانی نے کہا ہے کہ تحقیقاتی سیل کا مقصد اپوزیشن اور میڈیا کو مروڑنا ہے، پنڈورا پیپرز تحقیقات کےلیے سیل مسترد کرتے ہیں۔
رضا ربانی کا کہنا تھا کہ وزیراعظم عمران خان معائنہ کمیشن کے پاس ایسی تحقیقات یا نگرانی کا مینڈیٹ نہیں، ایسی کوئی بھی کارروائی غیر قانونی ہوگی۔
انہوں نے کہا کہ جسٹس عیسیٰ کے خلاف وزارت قانون اور مشیر احتساب کی غیر قانونی تحقیقات کو سپریم کورٹ نے غیرقانونی قرار دیا تھا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ پیمرا کے ذریعے میڈیا ہاؤسز کی تحقیقات جج، جیوری اور جلاد کے مترادف ہے، اسے مسترد کرتے ہیں، ایف بی آر کو معاملہ بھجوانے کا کوئی فائدہ نہیں، یہ ایک ڈھال ہے۔
سینیٹر رضا ربانی کا یہ بھی کہنا تھا کہ ایف بی آر نے پاناما پیپرز میں پہلے نوٹس کے بعد کچھ نہیں کیا تھا، حکومت کی جانب سے اپنے ساتھیوں کے احتساب کی تاریخ بہت خراب ہے۔
پی پی کے رہنما نے کہا کہ چینی اور گندم اسکینڈل کی رپورٹس سرد خانے میں ڈال دی گئیں، پیٹرول، صحت کے معاون خصوصی نے پیٹرول اور ادویات کی قیمتوں میں اضافے کے اسکینڈل پر استعفیٰ دیا مگر کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔
وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت گزشتہ روز پارٹی رہنماؤں کے ہونے والے اجلاس میں پنڈورا لیکس کی تحقیقات کیلئے وزیراعظم نے انسپکشن کمیشن کے تحت اعلیٰ سطح کا سیل قائم کیا تھا۔
اس حوالے سے وزیر اطلاعات فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ اعلیٰ سطح کا سیل پنڈورا لیکس میں شامل تمام افراد سے جواب طلبی کرے گا، پنڈورا لیکس کے متعلق حقائق قوم کے سامنے رکھے جائیں گے۔
واضح رہے کہ پنڈورا پیپرز میں 700 سے زائد پاکستانیوں کے نام سامنے آئے ہیں جن میں وزیر خزانہ شوکت ترین، وفاقی وزیر مونس الٰہی، پی ٹی آئی کے سینیٹر فیصل واوڈا، پنجاب کے سینئر صوبائی وزیر عبدالعلیم خان اور مسلم لیگ نون کے اسحاق ڈار کے بیٹے علی ڈار شامل ہیں۔
اس کے علاوہ پیپلز پارٹی کے رہنما شرجیل میمن، وفاقی وزیر خسرو بختیار کے اہل خانہ، وزیراعظم کے سابق معاون خصوصی وقار مسعود کے بیٹے اور بدنامِ زمانہ ایگزیکٹ کے مالک شعیب شیخ کے نام شامل ہیں۔
پنڈورا پیپرز کی فہرست میں کچھ ریٹائرڈ فوجی افسران، کچھ بینکاروں، کچھ کاروباری شخصیات اور کچھ میڈیا مالکان کے نام بھی شامل ہیں۔