پاکستان پیپلز پارٹی کے سیکرٹری جنرل نیئر بخاری نے کہا ہے کہ پنڈورا پیپرز کی تحقیقات کے لئے تحقیقاتی سیل اپنوں کو بچانے کا طریقہ ہے۔
پنڈورا پیپرز کی تحقیقات کیلئےقائم سیل کے معاملے پر ایک بیان میں نیئر بخاری کا کہنا تھا کہ پنڈورا پیپرز کی تحقیقاتی سیل کی نگرانی وزیراعظم کریں گے، تحقیقاتی سیل عدلیہ کی بجائے وزیراعظم کو رپورٹ کریں گے۔
نیئر بخاری کا مزید کہنا تھا کہ تحقیقاتی سیل کا نتیجہ آٹا چینی گندم کمیشن جیسا ہی ہوگا، اپوزیشن سے صرف الزام کی بنیاد پر استعفیٰ مانگنے والا اب اپنوں سے استعفی کیوں نہیں لے رہا؟
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ پنڈورا پیپرز کیلئے بھی خان صاحب وہی طریقہ اپنائیں جو اپوزیشن ارکان سے مطالبہ کرتے رہے، وزیراعظم جے آئی ٹی بنائیں، تحقیقات مکمل ہونے تک کابینہ ارکان سے فوری استعفیٰ لیں۔
وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت گزشتہ روز پارٹی رہنماؤں کے ہونے والے اجلاس میں پنڈورا لیکس کی تحقیقات کیلئے وزیراعظم نے انسپکشن کمیشن کے تحت اعلیٰ سطح کا سیل قائم کیا تھا۔
اس حوالے سے وزیر اطلاعات فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ اعلیٰ سطح کا سیل پنڈورا لیکس میں شامل تمام افراد سے جواب طلبی کرے گا، پنڈورا لیکس کے متعلق حقائق قوم کے سامنے رکھے جائیں گے۔
ایک بیان میں پیپلز پارٹی وسطی پنجاب کے جنرل سیکرٹری حسن مرتضیٰ کا کہنا تھا کہ پنڈورا لیکس سیاستدانوں کو بدنام کرنے کا ہتھکنڈا ہے، جہلم کا خانہ بدوش وزیر اپنی نوکری بچانے کے لیے روزانہ اپوزیشن پر گند اچھالتا ہے، احتساب کا آغاز سلیکٹڈ اپنے دودھ کے دھلے حکومتی وزرا اور ارکان سے کریں۔
ادھر پیپلزپارٹی کے رہنما شرجیل انعام میمن کا کہنا ہے کہ پنڈورا پیپرز میں ان کا نام آیا اس کا پیپلز پارٹی سے کوئی تعلق نہیں، سیاست میں آنے سے قبل اپنے اثاثے الیکشن کمیشن کو جمع کرائے۔
واضح رہے کہ پنڈورا پیپرز میں 700 سے زائد پاکستانیوں کے نام سامنے آئے ہیں جن میں وزیر خزانہ شوکت ترین، وفاقی وزیر مونس الٰہی، پی ٹی آئی کے سینیٹر فیصل واوڈا، پنجاب کے سینئر صوبائی وزیر عبدالعلیم خان اور مسلم لیگ نون کے اسحاق ڈار کے بیٹے علی ڈار شامل ہیں۔
اس کے علاوہ پیپلز پارٹی کے رہنما شرجیل میمن، وفاقی وزیر خسرو بختیار کے اہل خانہ، وزیراعظم کے سابق معاون خصوصی وقار مسعود کے بیٹے اور بدنامِ زمانہ ایگزیکٹ کے مالک شعیب شیخ کے نام شامل ہیں۔
پنڈورا پیپرز کی فہرست میں کچھ ریٹائرڈ فوجی افسران، کچھ بینکاروں، کچھ کاروباری شخصیات اور کچھ میڈیا مالکان کے نام بھی شامل ہیں۔