• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہمارے کوچۂ سیاست اور صحافت میں عرصہ دراز سے NROکی اصطلاح کا خوب استعمال ہو رہا ہے، اِس کا اولین تذکرہ اُن دنوں ہوا تھا جب ایک آمر نے اپنے مخصوص مفادات کے زیر اثر ہماری ایک بڑی عوامی قائد کو یہ تحفہ عنایت فرمایا تھا لیکن اُس بہتی گنگا سے بڑے بڑے بیوروکریٹس نے بھی ہاتھ دھوئے تھے، کئی تو اُس میں خوب اشنان بھی کرتے رہے۔

گزشتہ تین برسوں کے دوران ایک بڑے حکومتی و سیاسی عہدے پر براجمان شخص کی طرف سے اِس اصطلاح کا استعمال اِس قدر ہوا کہ کئی کان یہ سن سن کر پک گئے ہوں گے کہ ’’میں کسی کو NROنہیں دوں گا‘‘۔ اِن دعوئوں سے کیا فرق پڑتا ہے جب سوچ یہہو کہ بڑا لیڈر ہوتاہی وہ ہے جو یوٹرن لیتے ہوئے کسی نوع کا کوئی حجاب محسوس نہ کرے۔ سیاست میں چونکہ لچک ہوتی ہے، ہونی بھی چاہئے، نہ معلوم کب کہاں پینترا بدلنا پڑ جائے، اسی لئے کہا جاتا ہے کہ سیاست میں کل کے دشمن آج کے دوست اور آج کے دوست کل کے دشمن بن سکتے ہیں۔

یہ تو خیر 35پنکچرز جیسی باتیں تھیں۔ اصل بات تو وہ ہے جو ترک نشریاتی ادارے ٹی آر ٹی کو انٹرویو میں کہی گئی، اپنے کانوں سے سننے کے باوجود ہنوز یقین نہیں آ رہا ہے کہ یہ اتنی بڑی ذمہ داری پر براجمان شخصیت کی طرف سے کہی گئی ؟ گزشتہ دو دہائیوں سے جن گروپوں کے حوالے سے قوم کو پیہم یہ بتایا جاتا رہا کہ یہ سب انڈیا کی پروردہ ہیں، TTPوالے بھارتی ایجنٹ یا آلہ کار ہیں جو پاکستان میں عدم استحکام پھیلانے کیلئے دہشت گردی کی وارداتیں کر رہے ہیں، ملک میں سبھی طبقوں کا یہی بیانیہ تھا۔ 16دسمبر 2014کا پشاور سانحہ تو وہ قیامتِ صغریٰ تھی جس نے سب کی زبانیں گنگ کر دیں، اس کے بعد بشمول اپوزیشن و حکومت، عسکری و سیاسی قیادت میں بھرپور ڈائیلاگ کے بعد قومی اتحاد ہوا کہ اب پانی سر سے گزر چکا، بہت دی جا چکی رعایتیں، بہت ہو چکے مذاکرات، ENOUGH IS ENOUGH۔ یوں ایک ’’میثاقِ قومی‘‘ طے پایا جسے ’’نیشنل ایکشن پلان‘‘ کا نام دیا گیا۔ یہ ABSOLUTELY NOTمحض فقرہ نہیں تھا ’’ایکشن پلان‘‘ تھا جو قومی اتفاقِ رائے سے پیش کیا گیا۔

بھلے مانسو آپ اتنا بڑا یوٹرن لے رہے ہو، کچھ تو قوم کو اور ان کی جیسی تیسی منتخب پارلیمنٹ کو اعتماد میں لے لو۔ ایک طرف آپ 70ہزار جانوں کی قربانیوں کو یاد کرتے ہو، دوسری طرف معافی ناموں کے ہار قاتلوں کے گلوں میں ڈالنے کیلئے بےچین ہو جاتے ہو، کس برتے پر؟ ذرا قوم کو یہ بھی بتائو کہ ماقبل آپ نے دہشت گردوں کے ساتھ کتنے معاہدے کئے اور کیا ملا؟ آپ کیوں اور کس لئے پوری دنیا کے سامنے طالبان کے ترجمان بنے کھڑے ہیں؟ سوال یہ ہے کہ اِس کمزور ترین سیٹ اپ کو آپ کس برتے پہ عظیم فتح اور غلامی کی زنجیریں ٹوٹنا قرار دے رہے ہیں؟ یہ کیسے فاتحین ہیں جو اپنی بقا کیلئے مفتوحین سے امداد کی التجائیں کر رہے ہیں اور آپ ان کا ڈھول پیٹنے پر لگے ہوئے ہیں۔ چلیں پیٹیں ضرور پیٹیں مگر پھر دنیا ہمیں دوغلا کہے تو اس کا غصہ نہ کریں اور جن کے لئے ڈھول پیٹ رہے ہیں، حالت یہ ہے کہ ان سے اتنا سا مطالبہ منوانے سے بھی قاصر ہیں کہ ہماری قوم پر آپ کی سرزمین سے دہشت گردی کا کوئی حملہ ہوا تو اس کے ذمہ دار آپ ہوں گے۔ امریکیوں نے تو زور زبردستی سے بھی یہ مطالبہ منوا لیا اور آپ پھولوں کی پتیاں نچھاور کرتے ہوئے بھی اس سے قاصر ہیں۔ بےبسی کی یہ حالت ہے کہ اپنے بچوں کے قاتلوں کی حوالگی کا وہ مطالبہ کرنے کی بھی سکت نہیں جو اشرف غنی حکومت سے دن رات کیا جاتا تھا۔

نہ جانے ہمارے سیاستدانوں کو یہ بات کیوں سمجھ نہیں آتی کہ TTPاور TTAایک ہی سکے کے دو رخ ہیںاور آنے والے برسوں نہیں بلکہ مہینوں میں بہت سے حقائق کھل کر سامنے آجائیں گے۔ آپ جن شادمانیوں کے خواب دیکھ رہے ہیں وہ بھی جلد شرمندہ تعبیر ہو جائیں گے ۔ جان لیجئے کہ اِن تلوں سے تیل نہیں نکلے گا۔ سیدھے سبھائو چلو، کم از کم اپنی پالیسیاں ہی ٹھیک کر لو، آئین جس کے تحفظ کی آپ سب نے قسمیں اٹھا رکھی ہیں اس کی عظمت اور اس کی ماں یعنی پارلیمنٹ کی عظمت کے سامنے غیرمشروط طور پر سر تسلیمِ خم کرلو۔ عام انسانوں اور اقوام کی طرح عوام کو اپنی پارلیمنٹ خود منتخب کرنے دو، یہی سلامتی کا واحد راستہ ہے۔

تازہ ترین