آزادی کے بعد سے اب تک پاکستان سری لنکا کی کامیاب دوستی کے بارے میں بہت کچھ لکھا اور کہا جا چکا ہے۔ اِن تعلقات نے دشمن قوتوں کی دائمی سازشوں کا ہر سطح پر مقابلہ کیا۔ سری لنکا جیسے ایک بہت چھوٹے ملک کے لئے کئی دہائیوں سے دشمن ممالک کے درمیان کامیابی کے ساتھ متوازن خارجہ پالیسی کو برقرار رکھنا اس کی قیادت کی اعلیٰ سفارتی مہارت کا نمونہ ہے۔ 1947اور 1948میں دونوں ممالک کی آزادی کے فوراً بعد سفارتی تعلقات کا آغاز ہوا اور عشروں گزرنے کے باوجود ان کی مضبوطی میںاضافہ ہی ہوا جس کی ایک بنیادی وجہ اُن چیلنجوں کی مماثلت بھی ہے، جو ہمارے پڑوسی ملک بھارت کی طرف سے پیدا کیے جاتے رہے ہیں اور جن کا دونوں ممالک نے بھرپور مقابلہ کیا ہے۔ایک چھوٹا ملک ہونے کی وجہ سے سری لنکا ہمیشہ اندرونی تامل شورش کا مقابلہ کر تے ہوئے براہِ راست خطرات کی زد میں رہا۔ ایک متحد ملک کے طور پر اپنی سالمیت اور بقا کے لئے خطرات کو شکست دینے کے لئے اس جزیرے کو ایسے دوستوں کی تلاش تھی جو دلیری کے ساتھ اسے ضروری سیاسی، سفارتی اور مادی مدد فراہم کرسکیں۔ چین اور پاکستان کے علاوہ کوئی بھی دوسرا ملک ہندوستان کے ساتھ اپنے علاقائی مسائل کے باوجود،سری لنکا کی مدد نہیں کر سکا جو کہ ایل ٹی ٹی ای کے خلاف اپنی جنگ میں شکست اور ٹوٹ پھوٹ کے دہانے پر تھا۔
بھارتی شور کے باوجود1971کی پاک بھارت جنگ کے دوران پاکستانی طیاروں کو لاجسٹک سپورٹ فراہم کرنے کا سری لنکا کا فیصلہ فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ چین اور پاکستان کی اہم مدد سے 2009میں تامل شورش کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے میں پاکستان کے کردار کو بھلایا نہیں جا سکتا لیکن جب دنیا سیاست سے معیشت کی طرف بڑھ رہی ہے ( اورسری لنکا اس سے مستثنیٰ نہیں ہے) تو کیا ماضی کے سیکورٹی چیلنجوں کے دوران باہمی تعاون کے ہمارے بے کار منتر سے جڑے رہنا دانشمندی ہوگی؟ اگرچہ سری لنکا واضح طور پر بدلتےہوئے حالات میں اپنے اپ کو ایڈجسٹ کر رہا ہے اور خطے میں متضاد سیاسی اور تزویراتی مفادات کے باوجود اس چھوٹے سے ملک نے اپنی اہمیت مہارت کے ساتھ متوازن رکھی ہے۔ سری لنکا کے ساتھ اپنے ٹھوس تعلقات سے فائدہ حاصل کرنے میں پاکستان خود کو کہاں کھڑا پاتا ہے؟ جب سری لنکا کی سالمیت کے لئے موجود خطرہ ختم ہو گیا اور ملک اب اپنی معاشی بحالی کی طرف رواں دواں ہے تو پھر پاکستان کیوں توقع کرتا ہے کہ اسے صرف ان دفاعی تعلقات کی بنا پر فائدہ حاصل ہو گا جو اب سری لنکا کی ترجیحات میں نہیں ہیں؟
ہمارے تعلقات کے لئے کیا خطرات درپیش ہیں اور ہمارا کیا ردِعمل ہو نا چاہئے؟ اول، سری لنکا کی موجودہ حکومت نے کئی مواقع پر بالواسطہ طور پر اپنا جھکاؤ واضح طور بھارت کی طرف ظاہر کیا ہے۔ ہمارے وزیر اعظم کو اپنے دورے کے دوران سری لنکن پارلیمنٹ سے خطاب کرنے سے بھارتی دباؤ پر روکنا (ابتدائی منصوبہ بندی کے باوجود) اور پاکستان کی قیمت پر بھارت کو خوش کرنا سری لنکا کی تبدیل ہو رہی ترجیحات کا اشارہ ہے۔ نو منتخب صدر گوٹابایا راجا پاکسا نے حلف اٹھانے کے ایک ماہ کے اندر بھارت کا دورہ کیا لیکن دو سال گزرنے کےباوجود پاکستان کے دورے کا انتظار ہے۔ پاکستان کو اس کے یوم آزادی کے موقع پر ٹویٹ کے ذریعے مبارکباد نہ دینا اور ہندوستان کو اِس طرح کے مواقع پر مبارکباد دینا یقیناً ہمارے لئے ایک پیغام ہے۔ اسی طرح، اکثروبیشتر دوطرفہ تجارت میں مختلف رکاوٹیں اور خاص طور پر پاکستان سے درآمد کی جانے والی مصنوعات پر اضافی ٹیکس لگانا جو ہمارے برآمد کنندگان کے لئے نقصان کا باعث بنتا ہے اور واضح طور پر دوطرفہ تجارت پر منفی اثر ات مرتب ہوتے ہیں۔ اس کے برعکس پاکستان نے ضرورت کے نازک اوقات میں سری لنکا کی تمام درخواستوں پر غیر مشروط لبیک کہا، کوئی سوال تک نہیں پوچھا۔ یو این ایچ آر سی جنیوا میں پاکستان سری لنکا کی بھرپور مدد کرتا رہا جہاں یہ اکثر خود کو کٹہرے میں کھڑا پاتا ہے۔ دوم، ایک مضبوط بنیاد کے باوجود برسوں سے دونوں حکومتوں کی مشترکہ صلاحیت اور مفادات کے دوسرے شعبوں میں تعلقات کو نہ بڑھانا ہماری طرف سے ایک بڑی ناکامی ہےجبکہ سری لنکا کے پاس دیگر ترجیحات اور زیادہ پرکشش مواقع دستیاب ہیں، ہمارا عدم دلچسپی کا رویہ واضح طور پر ہماری موجودہ اہمیت کو کھونے کی قیمت پر ہوگا جو پڑوسی کے حملوں سے مستقل خطرے میں ہے۔ تیسرا، پاکستانی قیادت اور متعلقہ وزارتوں کا کچھ ممالک بالخصوص مغرب کو اہم جان کر اُنہیں زیادہ ترجیح دینا ملک کے طویل المدتی مفادات کے لئے مہنگا پڑے گا۔ چھوٹے ممالک کو غیر اہم سمجھ کر ان کو صرف اپنے سفارتخانوں کے حوالے کر دینا جنہیں دفتر خارجہ کے ذمہ داروں کی طرف سے نہ کوئی رہنمائی اور نہ مدد حاصل ہو۔ اس طرح کے رویے یقینی طور پر مجموعی قومی سفارتی کوششوں کے لئے نقصان کا سبب بنیں گے۔ اس طرح کابرتاؤ زیادہ واضح طور پر ان سفارتخانوں کے ساتھ دیکھا جاتا ہے جہاں سفیر یا ہائی کمشنر مسلح افواج کے سابق افسروں میں سے ہوتے ہیں جن کی تعیناتی قانونی اور آئینی طریقہ کار کے تحت عمل میں لائی جاتی ہے۔
سری لنکا ایک اہم علاقائی ملک ہونے کے ناطے زیادہ توجہ اور ترجیح کا مستحق ہے۔ ہم جہاں ہیں اور جہاں ہمیں تعلقات کے تمام پہلوؤں میں ہونا چاہئے، اس میں ایک جھنجھلاہٹ ہے اور یہ دونوں طرف سے زبردست نیک خواہشات کے باوجود ہے۔ باہمی تعلقات میں دوطرفہ صلاحیتوں کو استعمال کرنے کے لئے دانستہ اور باقاعدہ بات چیت کے ذریعے قیادت کی سطح پر توجہ دینا انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ ہمیں ایک ایسے وزیر خارجہ کی ضرورت ہے جس کی توجہ ان کی حساس ذمہ داریوں اور علاقائی سیاست میں تقسیم نہ ہو۔ ایک ایسے خارجہ سیکرٹری جو بوقت ضرورت دستیاب ہونے کے ساتھ بروقت فیصلہ سازی کے ذریعے مؤثرقیادت اور رہنمائی فراہم کر سکے۔ روشن مواقع زیادہ دیر دستیاب نہیں رہتے کیونکہ دوسرے دعویدار انہیں چھیننے کی تلاش میں ہوتے ہیں۔ دوطرفہ تعلقات کا معیار جو ہمارے پیشروؤں نے اَن تھک کوششوں سے حاصل کیاہے، انہیں ملک کے مفاد میں استعمال نہ کرنا بدقسمتی اور اپنی نالائقی سے دشمن کے ہاتھوں گنوانا مجرمانہ عمل ہوگا۔
(صاحبِ تحریر سری لنکا میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کے ہائی کمشنر ہیں)