• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

چیئرمین قومی احتساب بیورو ( نیب ) کی مدت ملازمت میں توسیع کےلئے حکومت نے صدارتی آرڈی ننس کا جو راستہ اختیار کیا ہے ، اس کی پاکستان کی مرکزی دھارے کی تقریباً تمام سیاسی قوتوں ، قانونی حلقوں اور رائے عامہ پر اثر انداز ہونے والے حلقوں کے ساتھ ساتھ سول سوسائٹی کے وسیع تر حلقوں نے بھی کھل کر مخالفت کی ہے ۔ حکومت کے اس اقدام کا کوئی قانونی جواز ہے یا نہیں ؟ اس پر بحث جاری ہے لیکن اس اقدام کو کسی قسم کا اخلاقی اور سیاسی جواز حاصل نہیں ہو سکا ۔ کیا تحریک انصاف کی قیادت کو اس امر کا ادراک ہے کہ اس کا یہ اقدام کن خطرناک نتائج کا حامل ہو سکتا ہے ?

اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں نے اس معاملے پر بحث کی غرض سے قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے کے لئےریکوزیشن جمع کرا دی ہے ۔ ریکوزیشن کے نوٹس میں کہا گیا ہے کہ ’’ چیئرمین نیب کی تقرری کےلئے ‘‘ قائد ایوان ( یعنی وزیر اعظم ) قائد حزب اختلاف میاں شہباز شریف کے ساتھ لازمی مشاورت کا آغاز کرنے میں ناکام رہے ہیں اور ایک آئینی عمل کو مکمل کرنے میں تاخیر کا سبب بنے ہیں ۔ لہذا اس معاملے پر بحث کے لئے قومی اسمبلی کا اجلاس بلایا جائے ‘‘ ۔ ریکوزیشن کے اس نوٹس پر رپورٹس کے مطابق 156اپوزیشن ارکان کے دستخط ہیں ۔ دوسری طرف پاکستان پیپلز پارٹی نے اس صدارتی آرڈیننس کو مسترد کرنے کے لئے سینیٹ میں قرار داد پیش کرنے کا اعلان کیا ہے ۔ وکلاء کی دو بڑی نمائندہ تنظیموں پاکستان بار کونسل اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے بھی چیئرمین نیب کی مدت ملازمت میں توسیع کے لئے جاری کردہ صدارتی آرڈیننس کو عدالت میں چیلنج کرنے کا اعلان کیا ہے ۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے بھی صدارتی آرڈی ننس کے بعد نیب کے مقدمات میں دائر کردہ ضمانت کی درخواستوں پر فیصلہ کرنے کے لئے نیب پراسکیوٹر اور سینئر وکیل فاروق ایچ نائیک سے قانونی معاونت طلب کر لی ہے ۔ نیب ریفرنسز پر عدالتی پیش رفت میں بھی مسائل پیدا ہو گئے ہیں ۔ میڈیا اور سول سوسائٹی کے حلقوں میں بھی اس آرڈی ننس کی مخالفت کی جارہی ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آرڈی ننس کے ذریعہ بزنس کمیونٹی ، بیورو کریسی ، وفاقی اور صوبائی وزراء اور ان کی کمیٹیوں کو نیب کے قانون کے دائرے سے باہر نکال دیا گیا ہے ۔ یعنی اب اس قانون کے تحت ان کی گرفت نہیں ہو سکتی ۔ آرڈی ننس میں احتساب عدالتوں کو اختیار دیا گیا ہے کہ وہ نیب کے مقدمات میں ملوث ملزمان کو ضمانتیں دےسکتی ہیں ۔ بڑے میگا کرپشن اسکینڈلز کے سوا دیگر مالیاتی جرائم کو بھی نیب کے دائرہ اختیار سے نکال دیا گیا ہے ۔ حکومت یہ کیا کر رہی ہے ؟ ایک آئینی ذمہ داری پوری کرنے کی بجائے نیب کو مزید متنازع اور نیب کے قوانین کو مزید امتیازی قوانین بنانے کی کوشش کی گئی ہے ۔ جب اس ملک میں صدر اور وزیر اعظم جیسے اعلیٰ عہدوں پر تقرر آئین کے برخلاف نہیں ہو سکتا تو نیب کے چیئرمین یا آرمی چیف کے تقرر میں دوسراراستہ اختیار کیوں کیا جاتا ہے ، جو آئین میں درج راستے سے مختلف ہے ۔ تحریک انصاف کی قیادت نے تو آئین اور قانون کی بالادستی کا نعرہ لگایا تھا ۔ اس نعرے کا کیا ہوا ؟ یہ تو ہوتا ہے کہ سیاسی جماعتیں اقتدارمیں آکر اپنے منشور یا وعدوں پر بوجوہ عمل نہ کر یں لیکن ایسا نہیں ہوتا کہ بلا وجہ اپنے منشور اور وعدوں کے برخلاف خود اقدامات کریں ۔ اپوزیشن لیڈر سے چیئرمین نیب کی تقرری میں مشاورت میں کیا قباحت ہے ؟ جب تک میاں شہباز شریف آئین اور قانون کی رو سے قائد حزب اختلاف ہیں ۔ ان سے مشاورت کرنا لازمی ہے ۔ ان پر کیسز ضرور ہیں لیکن جرم ثابت نہیں ہوا ۔ اگر جرم ثابت ہو جاتا تو وہ اپوزیشن لیڈر بھی نہ رہتے اور نااہل ہو جاتے ۔ کسی بھی وزیر اعظم کو آئین سے انحراف سیاسی مفروضوں یا سوچ کی بنیاد پر نہیں کرنا چاہئے ۔ کیسز تو تحریک انصاف کی قیادت پر بھی ہیں ۔

قومی احتساب آرڈی ننس ( این اے او ) میں اگر ترامیم کرنا تھیں تو وزیر اعظم اپوزیشن کی مشاورت سے کر سکتے تھے کیونکہ اپوزیشن بہت پہلے سے این اے او میں اصلاحات کا مطالبہ کر رہی ہے یہ قانون ازخود متنازع تھا ، ہے اور رہے گا ۔ صدارتی آرڈی ننس کے ذریعے اسے مزید متنازع اور امتیازی بنادیا گیا ہے ۔ پینڈورا پیپرز میں جن لوگوں کے نام آئے ہیں ، ایسا لگتا ہے کہ انہیں بچانے کے لئےیہ آرڈی ننس لایا گیا ہے ۔ میں انہی کالموں میں بار بار اس امر کی نشاندہی کرتا رہو ہوں کہ قیام پاکستان کے بعد احتساب کے نظام اور امتیازی قوانین بنا کر ملک میں سیاست اور سیاست دانوں کو ختم کرنے کی مہم شروع کی گئی ۔ موجودہ قومی احتساب آرڈی ننس ( این اے او ) انہی امتیازی قوانین کا چربہ ہے ، جسے صدارتی آرڈی ننس کے ذریعہ مزید امتیازی بنا دیا گیا ہے ۔ چیئرمین نیب کی مدت ملازمت میں توسیع کرکے حکومت نے ان کی غیر جانبدارانہ حیثیت کو بھی سوالیہ نشان بنا دیا ہے ۔ نظامِ احتساب ، احتساب کے قانون اور چیئرمین نیب کے عہدے کو مزید متنازع بنانے کا نقصان یہ ہو گا کہ پاکستان میں حقیقی ، غیر جانبدارانہ اور شفاف احتساب کا نظام قائم ہونے کی جو امید باقی تھی ، وہ بھی دم توڑ جائے گی ۔احتساب کا حقیقی موثر نظام قائم کرنے کا راستہ مسدود کیا گیا تو کرپشن اور امتیازی احتساب ملک کی بنیادوں کو کھوکھلا کر دے گا ۔ اب بھی وقت ہے حکومت چیئرمین نیب کے تقرر کے لئے آئینی راستہ اختیار کرے ۔

تازہ ترین