• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہماری ریاستِ مدینہ کے معماروں پر لوگ نہ جانے کیوں ہمہ وقت طرح طرح کے شکوک و شبہات کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔ خاص طور پر میڈیا جس کےمعمار وں کا گمان ہے کہ70 فیصد ہمارے خلاف ہی ہے، ہماری برائیاں تلاش کرتااور ہماری پالیسیوں پر ہر پل تنقید کرتا رہتا ہے حالانکہ ہمارا مشن تو کام، کام اور بس کام ہے۔ اگر اس کو کوئی ڈنگ ٹپائو پالیسی کہتا ہے تو شوق سے کہہ لے، ہمیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا اس لئے کہ جو دنیا میں بڑے لوگ ہوئے ہیں،طے شدہ پالیسیوں یا اصولوں کے پابند نہیں کبھی نہیں رہے۔ میکیاولی نے کیا خوب فرمایا ہے کہ اپنے حکومتی استحکام کے لئےاگر مہینے میں 30 مرتبہ بھی یوٹرن لینا پڑے تو کوئی مضائقہ نہیں۔ میڈیا والے تو فارغ لوگ ہیں ہر وقت دوسروں کی برائیاں تلاش کرتے رہتے ہیں حالانکہ یہ حکم دیا گیا ہے کہ دوسروں کی پردہ پوشی کرو ہمارے توشہخانے میں اتنا کچھ پڑا ہوا ہے، کیا فرق پڑتا ہے۔ اگر سیال سونا بیچنے والوں کی دی ہوئی گھڑی صرف چھ کروڑ میں فروخت کر دی جائے ۔کئی فارغ لوگ مہنگائی کا رونا لے کر بیٹھ جاتے ہیں حالانکہ ہمارے ملک میں چیزیں جس قدرسستی ہیں پوری دنیا میں اس کی مثال نہیں ملتی ہے۔ پٹرول ہی کو لے لیں کہ اس خطے کے دیگر ممالک میں اس وقت پٹرول کی کیا قیمتیں ہیں ذرا ان کی تفصیلات تو جمع کریں آپ کو لگے گا کہ یہ تو یہاں مفت میں مل رہا ہے اس پر سادگی سے کہہ دیا جاتا ہے کہ ڈالر یا پائونڈ کے مقابلے میں ہماری کرنسی کی ویلیو کم ہو گئی ہے، بھلے لوگو ذراان پاکستانیوں سے پوچھو جو پردیس میں محنت اور جانفشانی سے ڈالرز اور پائونڈز کماتے ہیں اور پاکستان میں اپنے گھر والوں کو بھیجتے ہیں ان کے گھرانوں کو کتنی خوشی ملتی ہے جب انہیں ایک ایک کے ڈیڑھ، پونے دو اور ڈھائی ڈھائی سو ملتے ہیں۔یہ لوگ کبھی شوگر مافیا اور کبھی آٹا مافیا کی کہانیاں بیان کرنے لگتے ہیں حالانکہ ان مافیاز کو ہم نے تو نہیں بنایا یہ تو پہلے سےچلے آ رہے ہیں ہم نے تو ان کے خلاف تحقیقات کرتے ہوئے کسی رورعایت کا مظاہرہ نہیں کیا ان لوگوں نے اعلیٰ ترین گروپ بنایا ہم پھر بھی ان کے آگے نہیں جھکے ۔کچھ لوگوں نے ان دنوں پنڈورا پیپرز کے نام پر بلا ضرورت نیا پنڈورا باکس کھول دیاہے، ہم نے اس حوالے سے تحقیقاتی سیل تشکیل دے دیا ہے جس میں ایف بی آر اور ایف آئی اے کے نمائندے شامل ہوں گےا ور فروغ صاحب اس کا بہتر طریق کار وضع کر لیں گے کیونکہ وہ بخوبی جانتے ہیں کہ کس کے ساتھ کیسے نمٹنا ہے۔

اب کے حالات مختلف ہیں ہمارے اتنے وزرا ہیں جن کے نام لئے جا رہے ہیں اور کچھ نام ایسی مقدس ہستیوں کے ہیں جن کو زبان پر لانا بھی درست نہیں۔ لہٰذا ہمارے آزاد قومی میڈیا کو بھی اس حوالے سے احتیاط کا دامن نہیں چھوڑنا چاہئے یہی تقویٰ کا اعلیٰ ترین تقاضا ہے۔ عوام کو یہ بھی سوچنا چاہئے کہ اب وقت بدل چکا ہے سات سو معززین کی پکڑ دھکڑ سے خوامخواہ خوف و ہراس کا ماحول پیدا ہو گا۔لوگوں کو یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ جس شخص کو پاناما میں رگڑا لگایا گیا تھا اس کی دیگر وجوہات کے علاوہ ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اس نے اپنے لندن فلیٹس ڈکلیئر نہیں کئے تھے اب کے تو ایسی کوئی بات ہی نہیں ہے۔اب ان کرپٹ لوگوں نے ہمارے اوپر تنقید کا ایک اور بہانہ ڈھونڈھ لیا ہے۔ چیئرمین نیب کی تقرری کے حوالے سے۔ بھئی ہم وقت کے حکمران ہیں جس کو چاہیں چیئرمین بنائیں ، یہ کون ہوتے ہیں ہمیں ڈکٹیشن دینے والے۔قائد حزب اختلاف کون ہوتے ہیں ہمیں روکنے یا مشاورت پر مجبور کرنے والے، اگر کوئی ایسا قانون بنا بھی تھا جو وزارت عظمیٰ کی کرسی پر براجمان شخص کو مجبور کرتا تھا کہ وہ اپوزیشن رہنما سے مشاورت کرے تو ہم نے بڑے سلیقے سے اسے درست کر لیا ہے۔ مہربانوں کی نئی تقرریوں پربھی یہ لوگ زیادہ خوش نہ ہوں جب ہم نے اپنے مہربانوں کی خدمت میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھنی ہےتو پھر خیر ہی خیر ہے۔ اگر اوپر والے کا فیصلہ ہو گیا کہ ہم نے اگلی ٹرم میں بھی یہیں رہنا ہے تو پھر دیکھتے ہیں کون ہمیں ترچھی نظروں سے دیکھتا ہےجو ہم کہیں یا کریں بس وہی ہماری پالیسی ہے کوئی ہمیں ایک کروڑ نوکریوں اور پچاس لاکھ مکانات کے طعنے نہ دے، ہم ایک کروڑ سے کہیں زیادہ نوکریاں دے چکے ہیں لنگر خانوں کی صورت میں مکانات کا وعدہ بھی جلد پایہء تکمیل کو پہنچ جائے گا، جو ہم نے اربوں درخت لگائے ہیں ان کے بعد تو کوئی سوال بنتا ہی نہیں جسے شک ہے وہ بے شک کے پی کے میں جا کر تمام درختوں کی گنتی مکمل کرلے۔ ہم باتوں پر نہیں صرف کام، کام اور بس کام پر یقین رکھتے ہیں۔

تازہ ترین