• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

خدا کی پناہ ......بابائے قوم محمد علی جناح نے اپنی جان لیوا بیماری بھی صرف اس لئے چھپائے رکھی اور علاج نہ کرایا کہ حریفوں بلکہ دشمنوں کو علم ہو گیا کہ مسٹر جناح کا چل چلائو ہے تو وہ تقسیم ہند کو التوا میں ڈال دیں گے کہ جناح صاحب کے بعد پاکستان کا کوئی پرسان حال ہی نہ ہوتا۔ 

سچ پوچھیں محمد علی جناح پاکستان کے پہلے ’’شہید‘‘ ہیں ورنہ بروقت علاج اور وہ بھی بیرون ملک ہوتا تو شاید بچ سکتے تھے لیکن انہوں نے جان بچانے کی بجائے پاکستان کے قیام کی خاطر جان قربان کرنے کو ترجیح دی۔

دوسری طرف تین بار وزیر اعظم رہ چکا یہ ’’قائداعظم ثانی‘‘ ہے جو دوسری بار ملک سے مفرور ہے، قائد نے جن سے پاکستان کی آزادی چھینی، یہ نہ صرف وہاں خود چھپا بیٹھا ہے بلکہ اس کی جائیدادیں، اولادیں، سمدھی اینڈ کمپنی بھی وہیں گھات لگائے بیٹھے ہیں کہ شاید پاکستان نامی چراگاہ پر پھر اس کا قبضہ ہو جائے اور وہ ساری لیٹ نکال سکے ۔

ڈوب مریں وہ لوگ جنہیں کبھی یہ خیال نہیں آیا کہ اس ملک کے وہ بچے بھی گروی پڑے ہیں جو ابھی پیدا نہیں ہوئے جبکہ ’’قائداعظم ثانی‘‘ کی اولادیں ڈالرز اور پائونڈز میں کھرب پتی ہیں۔

نتیجہ کیا نکلا ؟

آج جب لندن وغیرہ میں موجود محنت کش پاکستانی آئے روز انہیں سرعام بے عزت کرتے ہیں تو ان کی کھوکھلی دھمکیاں سن کر اور گھوریاں دیکھ کر کہتے ہیں .......

’’یہ پاکستان نہیں ہے ‘‘

یہ ہے اس ’’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘‘ اور بابائے قوم کے عظیم تحفے کی اصل سمری، حقیقی خلاصہ جس پر لاکھوں مسلمانوں کی عزتیں اور جانیں قربان کی گئی تھیں اور یہ ’’قتل عام‘‘ پورے زور وشور سے آج بھی جاری ہے ۔

ہمارے لوگوں کو یہ کربلائی حقیقت کب سمجھ آئے گی کہ جب ہم ’’غلام‘‘ تھے تو ہماری نسلیں پیدا ہونے سے پہلے ہی غلام اور گروی نہیں ہوتی تھیں۔

صرف ایک جملہ ’’ یہ پاکستان نہیں ہے ‘‘ ہر پاکستانی کے منہ پر زناٹے دار تھپڑ اور ایک ’’ری مائنڈر‘‘ سے کم نہیں ہے کہ ’’ہم وطنو! ہوش کرو، سوچو کہ وہ کون کون تھے جو تمہیں بلکہ تمہاری اولادوں کو بھی بیچ گئے ۔ 

یہ 2021ء ہے حکمرانوں کو اپنے نوکر بھی نہیں چاکر سمجھو لیکن اصل اوقات کیا ہے ؟ کہ صرف بیرون ملک پاکستانی ہی گنڈ کپّوں اور ٹھگوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر یہ کہہ سکتا ہے ‘‘۔

’’یہ پاکستان نہیں ہے ‘‘...... پاکستان، جہاں چوروں، ڈاکوئوں کو ’’سادھ‘‘ ماننا پڑتا ہے میرٹ کے قاتلوں کو ’’محترم‘‘ کہنا پڑتا ہے، کتوں سے چھیچھڑے طلب کرنے پڑتے ہیں، اپنے ہی ٹکڑوں پر پلنے والوں کو ’’سر‘‘ کہنا پڑتا ہے اور ’’نوکر شاہی‘‘ جیسی ذلت آمیز اصطلاحیں بھی قابل قبول ہیں تو یہ ملک ہے یا کیا ہے ؟ کیا یہ واقعی ’’پاکستان‘‘ ہے یا کچھ اور؟کیا یہ ملک واقعی اسلام کی تجربہ گاہ رہا یا چند مخصوص خاندانوں کی شکار گاہ ؟

اور کچھ نہیں تو تمہیں رب، رسول ؐ کا واسطہ کبھی اپنے ملک کے نام پر ہی غور کر لو ....’’اسلامی، جمہوریہ، پاکستان‘‘ تو کیا یہ ’’اسلام‘‘ کا عکس ہے؟ کیا یہ خلافت والی جمہوریہ ہے یا مغربی جمہوریت کی کاپی؟ کیا یہ سچ مچ پاکیزگی کا سمبل ہے ؟ اگر کوئی روزِمحشر ہے تو کیا ہم واقعی اپنے محبوب ،آقا، مصطفیؐ کو فیس کرنے کے قابل ہوں گے ؟

سوال بہت بنیادی اور سادہ ہیں تو ہمیں کیوں سمجھ نہیں آ رہا کہ ’’پاکستان‘‘ نامی اس گھر کو جن لوگوں نے تباہ و برباد، مغلوب اور مقروض کیا وہ کون ہیں ؟ اور ان کے دست وبازو کون ہیں ؟ تو یقین مانو وہ ہم ہی ہیں ورنہ ان ٹکے ٹکے کے لوگوں کی کیا مجال تھی کہ اس ملک کو ایسے حال تک پہنچا سکتے۔

پاکستان کے بارے میں میرا فہم ہے کہ اگر اسے لوٹنا، بھنبھوڑنا، نچوڑنا، جھنجھوڑنا، چوسنا ہی چھوڑ دیا جائے تو یہ ملک وائیبل ہے لیکن یہاں تو کمیشن، کک بیک، رشوت کو اپنا حق حلال یا شاید اوورٹائم سمجھ کر وصول کیا جاتا ہے۔

کہنے کو اسلامی جبکہ اسلام کا اقتصادی فلسفہ تو یہ ہے کہ جب کچھ لوگوں کے پاس ضرورتوں سے بہت زیادہ جمع ہو جائے تو جان لو اکثریت بنیادی ضرورتوں سے بھی محروم ہو گئی۔ 

یہاں مسلسل یہی کچھ ہو رہا ہے انتہا یہ کہ ’’روٹی،کپڑا، مکان‘‘ جیسے نعرے کے موجد بھٹو کو اپنے ایک سندھی وزیر اعلیٰ سے کہنا پڑا کہ ’’صاحب! قائد کے مزار کو اپنی غلط بخشیوں سے علیحدہ رکھنا‘‘

کبھی کبھی یہ خیال آتا ہے کہ یہ لوگ حرام کو حرام سمجھتے ہی نہیں ورنہ کوئی اتنا پراعتماد اور جھوٹا کیسے ہو سکتا ہے۔ بات چلی تھی انگلینڈ سے جہاں لوگ سرعام ان کی توہین کرکے بھڑاس نکالتے ہیں اور پھر ان کے حواریوں کے غزانے پر چھاتی پہ ہاتھ مار کر کہتے ہیں ۔

’’یہ پاکستان نہیں ہے ‘‘

گزشتہ کل ہمدم دیرینہ امیر افضل غور ی نے اک ویڈیو دکھائی جس میں اک پاکستانی ان کی کسی گاڑی کے آگے سینہ تان کر کھڑا کہہ رہا ہے۔

’’یہ پاکستان نہیں ہے ،ہمت ہےتو اپنی دھمکی پر عمل کرتے ہوئے گاڑی مجھ پر چڑھا کر دکھائو‘‘

پاکستان اس دن پاکستان بنے گا جب پاکستان کے اندر پاکستانی،حکمرا ن اور حکمرانی کو اس طرح للکارتے ہوئے کہہ سکے گا

’’یہ پاکستان ہے جہاں تم میرا استحصال نہیں کر سکتے اور اگر کرو گے تو تمہیں کڑے احتساب کا نتیجہ خیز سامنا کرنا پڑے گا‘‘

ایسا پاکستان بنے گا کب؟

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)

تازہ ترین