شہر میں بھتہ خور دوبارہ سرگرم ہوگئے ہیں ، تاجروں اور کاروباری حضرات کو بھتے کی پرچیاں ملنے کا سلسلہ ایک مرتبہ پھرشروع ہوگیا ہے۔ کراچی پولیس ترجمان کی جانب سے یومیہ بنیاد پر مبینہ پولیس مقابلو ں اور درجنوں گرفتاریوں کے دعووں اور ذرائع ابلاغ کو دی جا نے والی جرائم کی خبروں اور پولیس کی مبینہ کارکردگی پر مشتمل ماہانہ بلیٹن کے اجرا کے باوجود شہر بھر میں ڈاکو راج قائم ہے۔
80فیصد وارداتیں تھانوں میں شہریوں کو درپیش مسائل اور پولیس کی جانب سے وضع کردہ خو ساختہ قوانین کی وجہ سے رپورٹ نہیں ہوپاتیں۔اسٹریٹ کرائمز کی وارداتوں میں کمی کی بجائے اضا فہ ہورہا ہے، لوٹ مار اور ڈکیتی مزاحمت پر قتل کی وارداتوں نے شہریوں کو خوف و ہراس میں جکڑا ہوا ہےاور وہ خود کو ڈاکوؤں اور لٹیروں کے رحم و کرم پر سمجھتے ہیں۔ سرجانی ٹاؤن سے لے کرناظم آباد تک ڈکیت موٹرسائیکلوں پر دندناتے پھرتے ہیں۔ میٹرک بورڈ آفس سے بنارس کے پل تک دو طرفہ سڑک غیر محفوظ ہے۔ عبداللہ کالج سے قلندری چوک تک، شاہ راہ نورجہاں پر ڈاکوؤں کا راج ہے لیکن ان تمام علاقوں میں پولیس دور دور تک نظر نہیں آتی۔
نارتھ کراچی کے خواجہ اجمیر نگری کے علاقے میں روزانہ کی بنیاد پر درجنوں وارداتیں ہوتی ہیں جن میں شہری موبائل فون، قیمتی اشیاء اور رقوم سے محروم ہوتے ہیں۔ ڈسکو موڑ سے بابا موڑ تک کا علاقہ دو تھانوں کی حدود میں آتا ہے لیکن اس سڑک پر نہ تو پولیس موبائل نظر آتی ہے اور نہ موٹر سائیکل اسکواڈ جب کہ یہاں پولیس چوکیوں کی اشد ضرورت ہے لیکن چوکی کی موجودگی ڈکیتی و لوٹ مار کی وارداتوں کی روک تھام کی بجائے شہریوں کے لیے ہی پریشانی کا باعث بنے گی۔
علاقہ مکینوں کے مطابق،پولیس کی دو موبائلیں، جن میں سے ایک 15 کی موبائل ہے،یکے بعد دیگرے صبح اور شام کے اوقات میں دکانداروں، ٹھیلے اور پتھارے والوں سے بھتہ لینے نکلتی ہیں جب کہ دو منٹ چورنگی سے الحمید اسکول اور اجمیر نگری تھانہ چوک سے باباموڑ کی طرف آنے والی سڑک گہرے گڑھوں کی وجہ سے شہریوں کی لیے غیر محفوظ ہے اور یہاں روزانہ لوٹ مار کی درجنوں وارداتیں ہوتی ہیں۔
دو ہفتے قبل اجمیر نگری تھانے کی حدود سیکٹر 2 میں کاشان نامی نوجوان کو اس کی گلی میں اس وقت ڈاکوؤں نے گولی مار کر ہلاک کردیا تھا جب وہ اپنی دکان پر جانے کے لیے گھر سے نکلا تھا۔ پولیس ذرائع کے مطابق عوام کی شکایات پر خواجہ اجمیر نگری تھانے سے دو سال کے دوران 4 ایس ایچ اوز معطل یا تبدیل کیے گئے لیکن صورت حال بدستورجوں کی توں ہے۔ ڈیفنس، شاہ راہ فیصل، فیڈرل بی ایریا ، لیاقت آباد، لانڈھی کورنگی ، گلستان جوہر، یونیورسٹی رو ڈ سمیت کوئی بھی علاقہ ڈاکوؤں کی دست برد سے محفوظ نہیں ہے۔ ڈکیتی مزاحمت پر قتل کی بڑھتی ہوئی وارداتیں دیکھ کر عوام یہ سوچنےپر مجبور ہوگئے ہیں کہ شاید حکومت اور محکمہ پولیس نے ڈاکوؤں کو ’’ماورائے عدالت قتل ‘‘ کا لائسنس دے دیا ہے جس کی وجہ سے وہ قتل و غارت گری کرکے باآسانی فرار ہوجاتے ہیں۔
شارع فیصل کارساز عوامی مرکز کے قریب ڈاکوؤں کی فائرنگ سے ان کا اپنا ساتھی 30 سالہ یعقوب ولد عبدالعلی مارا گیاجب کہ مالک مکان 37سالہ کمال شاہ ولد شفیع الدین شدید زخمی ہوگیا ۔ پولیس کے مطابق واٹربورڈ کالونی میں واقع مکان نمبرH/5میں 3 ڈاکو داخل ہوئے، گھر کے مالک نے ایک ڈاکو کو پکڑ لیا جس پر اس کے ساتھیوں نےفائرنگ کر دی گولی لگنے سے ایک ڈاکو ہلاک ہوگیاجب کہ مالک مکان زغمی ہوگیا۔
2ڈ اکو فائرنگ کرتے ہوئے فرار ہو گئے ۔اورنگی ٹاؤن تھانے کی حدودسیکٹر 8 بنارس مارکیٹ قبرستان کے قریب 50 سالہ آ فتاب حیدر ولد طالب حسین ڈاکوؤں کی فائرنگ سے جاں بحق ،کورنگی فلورمل کے قریب ڈکیتی مزاحمت پر حساس ادارے کا اہلکار 30سالہ جمیل الدین ولد پہلوان جاں بحق ہو گیا ۔ راہ گیروں، کار اور موٹر سائیکل سواروں اور دکانداروں سےلوٹ مار کی وارداتوں کے بعد اب سبزی فروش بھی لٹیروں کے نشانے پر آ گئے ہیں ۔
مسلح ڈاکوایک سبزی فروش سے دن بھر کی کمائی لوٹ کر فرار ہوگئے ۔اسلحہ بردار سکیورٹی گارڈ زکی موجودگی کے باوجود سپر اسٹور بھی محفوظ نہیں ہیں ،ناظم آباد رضویہ سوسائٹی کے ایک سپر اسٹور سے مسلح ڈاکو کیش کاؤنٹر سے لاکھوں روپے نقد اور سکیورٹی گارڈ کا اسلحہ چھین کر فرار ہوگئے۔
پولیس کی کارکردگی سے مایوس شہریوں نے اپنے تحفظ کے لیے ہتھیار اٹھا لیے ہیں۔ اس سلسلے کا پہلا واقعہ شیر شاہ تھانے کے قریب ماڑی پور روڈ پرپیش آیا۔ ٹریفک جام کے دوران پھنسی ہوئی گاڑیوں میں سوار افراد سے 2مسلح ملزمان لوٹ مار کر رہے تھے ۔جب وہ کوئٹہ سے کراچی آنےکار کی جانب بڑھے تو کار سوار برکت علی ولد حضور بخش نے ڈاکوئوں پر فائرنگ کردی جس کے نتیجے میں ایک ڈاکو 22 سالہ زروید خان ہلاک ہو گیا ۔
الفلاح تھانے کی حدود ملیر جامعہ ملیہ روڈ کشمیری ہوٹل کے قریب ملک موٹرز میں لوٹ مار کے لیے آنے والا ڈاکو، سکیورٹی گارڈ کی فائرنگ سے ہلاک ہو گیا، جب کہ ڈاکو کی فائرنگ سے سکیورٹی گارڈ زخمی ہوا ۔تیموریہ تھانے کی حدود پیپلز چورنگی پرچند روز قبل کو دو ملزمان شہری سے گاڑی چھینے کی کوشش کر رہے تھے کہ کار سوارعمیرنے فائرنگ کردی جس کے نتیجے میں ایک ڈاکو ہلاک ہو گیاجبکہ اس کا ساتھی فرار ہو گیا۔
اس وقت شہر کودرپیش سب سے زیادہ تشویش ناک صورت حال یہ ہے کہ بھتہ مافیا دوبارہ سر گرم ہو گئی ہے ۔ایک محتاط اندازے کےمطابق روا ں سال بھتہ خوری کے 18سے زائد واقعات سامنے آئے ۔ بھتے کی پرچیاں ملنے پر تاجروں میں بھی خوف و ہراس پھیل گیا ہے ،جس کےباعث تاجر برادری کاروباری حب سے کارروبار ختم کر نے پر غور کررہی ہے ۔گزشتہ پیر کو فیروز آباد تھانے کی حدودپی ای سی ایچ ایس بلاک تھری کے رہائشی ،چائے کی پتی کےتاجر کےبنگلے کےمرکزی گیٹ پر نامعلوم افراد کورئیر کمپنی کا لفافہ دے گئے ۔چوکیدارنے لفافہ گھر کے مالک کو پہنچایا۔
جب اسے کھولا گیا تو اس میں سے ٹی ٹی پستول کی 2گولیاں اور دھمکی آمیز خط ملا جس میں تحریر تھاکہہ ہمارے پاس تمھارے بارے میں تمام معلومات ہیں، خاموشی سے ایک کروڑ روپیہ دے دو۔اگر کسی کو بتایا تو نتیجہ تمھیں بھگتنا پڑے گا اورتمہیں جان سے مار دیا جائے گا۔پولیس نے واقعہ کا مقدمہ ثقلین کی مدعیت میں درج کرلیا ۔ واقعے کے 2 روز بعد ہی ایس آئی یو پولیس نے خفیہ اطلاع ملنے پر ان میں سے ایک مبینہ ملزم کو منظور کالونی سے گرفتار کرلیا ۔ پولیس کے مطابق ملزم کا کریمنل ریکارڈ موجود ہے اور وہ پہلے بھی کئی مرتبہ جیل جا چکا ہے، پولیس کا کہنا ہے کہ اس نے دوران تفتیش اعتراف جرم کرلیا ۔ ملزم سے اس کےفرار ساتھی سمیت بھتہ مافیا گینگ کے دیگر ارکان کے حوالے سے تفتیش کی جارہی ہے ۔
شہر میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ بھی جاری ہے۔بفرزون سیکٹر 15 اے 4 الحبیب ریسٹورنٹ کے قریب واقع مقامی اسپتال کے باہرموٹر سائیکل سوار ملزمان کی اندھا دھند فائرنگ سے 48 سالہ شخص غلام مرتضی عرف پنی ولد عبداللہ شدید زخمی ہوگیا ۔اسے عباسی شہید اسپتال منتقل کیا گیا، جہاں وہ زخموں کی تاب نہ لا کر دم توڑ گیا۔ پولیس کے مطابق مقتول مذکورہ اسپتال کے مالک ارسلان جمشید کے پاس ڈرائیور تھا۔
وہ اسپتال کے باہر گاڑی صاف کررہا تھا کہ ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بن گیا۔ میڈیکل سینٹرکے مالک نے پولیس کو بتایا کہ گزشتہ سال مقتول کے والد جمشید کوپریڈی تھانے کی حدود میں ٹارگٹ کیا گیا تھا اور مقتول اس کیس کا عینی شاہد تھا۔ پولیس نے جائے وقوعہ سے گولیوں کے خول تحویل میں لے کر ارسلان کی مدعیت میں 2 نامعلو م ملزمان کے خلاف مقدمہ درج کرلیا ہے ۔
جرائم کی بڑھتی ہو ئی شرح کے حوالے سے نمائندہ جنگ نے کراچی پولیس چیف، عمران یعقوب منہاس کا موقف جاننے کے لیے ان سے رابطہ کرنے کی کوشش کی ۔ ایڈیشنل آئی جی کی ترجمان کو متعدد بار واٹس ایپ نمبر پرفون کیا لیکن انہوں نے فون ریسیو نہیں کیا۔ کراچی میں ڈکیتی، لوٹ مار اسٹریٹ کرائمز ، بھتہ خوری کی بڑھتی ہوئی وارداتوں کو دیکھتے ہوئے سندھ حکوت نےایڈیشنل آئی جی کراچی ،عمران یعقوب منہاس کوعہدے سے ہٹا دیا ہے۔
باخبر ذرائع کے مطابق سلطان علی خواجہ کونیا کراچی پولیس چیف مقرر کیا جارہاہے جبکہ سابق ایڈیشنل آئی جی ڈاکٹرامیرشیخ بھی اس دوڑ میں شامل ہیں ۔ آئی جی سندھ، مشتاق مہر نےبھی کراچی میں امن و امان کی سنگین صورت حال پر اپنی خاموشی توڑ دی ہےاور انہوں نے تمام زونل ڈی آئی جیز کو لکھے گئے ایک مراسلے میں سختی سے ہدایت کی ہے کہ ،جس علاقے میں بھی اسٹریٹ کرائمزکی واردات ہوگی ،اس کا ذمہ دار ڈی ایس پی کو قرار دے کر کارروائی کی جائے گی اور جس علاقے میں موبائل گشت کے باوجود واردات ہو گی ،موبائل افسر کے خلاف سخت تادیبی کارروائی کی جائے گی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایڈیشنل آئی جی کی تبدیلی اور آئی جی کے احکامات کے بعد اسٹریٹ کرائمز کا خاتمہ ممکن ہوسکے گا۔؟