• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پورے افغانستان پر اپنا اقتدار مستحکم کرنے کے بعد بھی طالبان کی حکومت کے عالمی سطح پر قبول نہ کیے جانے کی ایک وجہ دنیا میں بنیادی انسانی حقوق کے بارے میں ان کے حوالے سے پائے جانے والے چند تحفظات ہیںجن میں خواتین کے حقوق اور ان کی تعلیم سر فہرست ہے۔ خوش کن امریہ ہے کہ گزشتہ ہفتے کابل کا دورہ کرنے والے یونیسیف کے ڈپٹی ایگزیکٹو ڈائریکٹر عمر عابدی نے اقوام متحدہ کے ہیڈکوارٹرز میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے انکشاف کیا ہے کہ طالبان لڑکیوں کو بہت جلد پورے ملک میں سیکنڈری اسکول جانے کی اجازت دے دیں گے جبکہ افغانستان کے پانچ صوبوں میں پہلے ہی یہ اجازت دی جا چکی ہے۔ طالبان کے وزیرتعلیم نے انہیں بتایا کہ وہ لڑکیوں کو چھٹی جماعت کے بعد اسکول کی تعلیم جاری رکھنے کی اجازت دینے کے لیے فریم ورک پر کام کر رہے ہیں اور یہ سلسلہ ایک دوماہ میں شروع کردیا جائے گا۔عمر عابدی کا کہنا تھا کہ انہوں نے طالبان پر واضح کیا کہ تعلیم لڑکیوںاور خود افغانستان کے لیے نہایت اہم ہے۔خیال رہے کہ 1996ءسے 2001ءکے دوران طالبان کی سابقہ حکومت میں لڑکیوں اور خواتین کو تعلیم اورروزگار کے حصول کی اجازت نہیں دی گئی تھی۔تاہم موجودہ طالبان حکومت کا موقف ہے کہ لڑکیوں کو تعلیم کی اجازت دی جائے گی لیکن مخلوط تعلیم نہیں ہوگی۔افغان حکومت اگر خود کوعالمی برادری سے منوانا چاہتی ہے تواسکے لیے یہ اقدامات کرنا لازم ہے جن کا دنیا ان سے مطالبہ کر رہی ہے۔عالمی برادری اور خاص طور پر یورپی یونین کا تو مطالبہ ہی خواتین کے حقوق کے حوالے سے ہے جبکہ ہمارے دین نے تو تعلیم کا حصول ہر مومن مردو زن کیلئے فرض قرار دیا ہے لہٰذا طالبان حکومت کو جلد از جلد لڑکیوں کی تعلیم بحال کردینی چاہئے۔

تازہ ترین