ماروی میمن
ماروی میمن اپنی ذہانت،علمیت ، موقف کے اظہار پر گرفت جیسی خوبیوں کے باعث جلد ہی میدانِ سیاست میں متنازع ہو گئیںکہ تخلیق کار، ذہین لوگوں کے (خواہ وہ کسی بھی شعبے سے وابستہ ہوں )حاسدین ومخالفین کی تعداد میں اضافہ کوئی اچنبھےکی بات نہیں۔ گو کہ ماروی میمن کے خاندان کا حوالہ ’’کاروبار ‘‘ہے کہ میمن کمیونٹی کی اکثریت کاروباری ذہن کی مالک ہوتی اور کاروبار ہی میں دل چسپی رکھتی ہے۔ عام تاثر بھی یہی ہے کہ میمن برادری خال خال ہی دوسرے شعبوں میں نمایاں نظر آتی ہے، لیکن ماروی میمن کے معاملے میں ایسا نہیں تھاکہ ان کے والد، نثار میمن بھی ایک زیرک سیاست دان تھےاور پاکستان مسلم لیگ (نون)سے وابستہ تھے۔وہ مسلم لیگ (نون)ہی کے ٹکٹ پرسینیٹ کے رکن بھی بنے اور بعد میں اطلاعات و نشریات جیسی اہم وزارت کے وفاقی وزیر بھی ۔
ماروی میمن نے ابتدائی تعلیم کراچی سےحاصل کی۔نیز، کویت اور پیرس میں بھی تعلیمی مدارج طے کیے۔ بعد ازاں، 1993ء میں ’’لندن اسکول آف اکنامکس‘‘ سےبین الاقوامی تعلقات میں بی ایس سی آنرز کیا۔واضح رہے، سیاست ماروی کے کیریئر کا واحدحوالہ نہیں ہے کہ وہ سیاست میں آنےسے قبل ڈان ،نیوز لائن، پاکستان انسٹی ٹیوٹ برائے بین الاقوامی اُمور ، سٹی بینک اور امریکی سفارت خانہ، اسلام آباد میں انٹرن شپس بھی کر چُکی ہیں۔ ماروی میمن کی سیاسی زندگی کا آغاز 2008ءمیں مسلم لیگ (ق)سے ہوا ،جب وہ خواتین کی مخصوص نشست پر قومی اسمبلی کی رکن منتخب ہوئیں ۔
بعدازاں،2012ء میں مسلم لیگ (نون)میں شمولیت اختیار کی اور سندھ سے خواتین کی مخصوص نشست پر قومی اسمبلی کی رکن منتخب ہوئیں۔ماروی چار مرتبہ قومی اسمبلی کی رکن اور بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کی چیئرپرسن رہ چُکی ہیں۔انہوں نے 2011ء میں اپنی پارلیمانی سیاست کے تجربات پرمبنی ایک کتاب ’’My Parliamentary Diaries‘‘ بھی لکھی۔ ماروی میمن نے کچھ عرصہ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامّہ کے ادارے، انٹر سروسز پبلک ریلیشنز (آئی ایس پی آر)میں بھی کام کیا۔میاں نواز شریف سے سیاسی وابستگی میں وہ بہت آگے آگے تھیں۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ جب سپریم کورٹ سے نااہلی کے بعد میاں نواز شریف ’’مجھے کیوں نکالا؟‘‘کا نعرہ لگاتے ہوئے اسلام آباد سے بذریعہ جی ٹی روڈ لاہور گئے، تو وہ ماروی میمن ہی تھیں ،جو ان کی گاڑی کے بونٹ پر چڑھ کر ان کے حق میں نعرے بازی کر رہی تھیں، لیکن پھر نہ جانے کیا ہوا کہ اچانک ہی منظر بدل گیا اور ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ، شائستہ ،مہذّب خاتون،ماروی میمن نے ایک منتقم مزاج عورت کا رُوپ اختیار کرلیا۔
انہوں نے ایسا کیوں کیا،اس کی وجوہ خاصی تفصیلی اور جزئیات دل چسپ ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ سابق وزیرِ خزانہ، اسحاق ڈار نے ماروی میمن سے شادی کے عہد و پیماں کیے تھے، لیکن وعدوں کے با وجود نہ صرف شادی سے مکر گئے، بلکہ نظرِالتفات مسلم لیگ کی کسی دوسری خاتون پر ،جو اُسی اسمبلی کی رکن تھیں، کرلی۔ یہی نہیں، وہ خاتون ماروی میمن کو تنگ کرنے اوراذیّت دینے کے لیےاکثرو بیش تر اسحاق ڈارکی ملحقہ نشست پر بیٹھ جاتیں، جو ماروی میمن کے لیےنا قابلِ برداشت ہوتا۔چناں چہ ماروی نےاسحاق ڈار سے باضابطہ طور پہ نکاح کرنے پر اصرار شروع کردیا۔ ڈار صاحب ٹال مٹول سے کام لیتے رہے اور تاریخوں پرتاریخیں دیتےرہے۔ دوسری جانب، معاملہ فہم ماروی میمن بھی صورتِ حال بھانپ چُکی تھیں ، لہٰذامسلسل نکاح پرزور دیتی رہیں۔ اسحاق ڈار میاں خاندان کے دبائو کے باعث خاموش رہے، تو موقعے کی نزاکت سے فائدہ اُٹھاتے ہوئےماروی میمن نے مسلم لیگ (نون)کے خلاف زہر اُگلنا شروع کر دیا ۔
یاد رہے، اسحاق ڈار سے شادی کے لیےانہوں نے میڈیا کو بھی خُوب استعمال کیا، جیسے وہ بار بار دھمکی آمیز انداز میں کہتیں کہ ’’مَیں بہت جلد ایک تفصیلی پریس کانفرنس میں عوام کے سامنے اُن لوگوں کو بے نقاب کروں گی، جنہوں نے نقاب پہنے ہوئے ہیں‘‘، گوکہ وہ اس حوالے سے کسی شخصیت کا نام نہیں لیتی تھیں ،لیکن سب ہی جانتے تھے کہ ان کا اشارہ کس کی طرف ہے۔ بالخصوص جب سوشل میڈیا پر غیر ذمّے دارانہ انداز اور الفاظ میں اس واقعے کا چرچا ہونے لگا ،تو بیگم کلثوم نواز نے میاں صاحب سے اس واقعے کا نوٹس لینے کوکہا، کیوں کہ ان کی صاحب زادی اسما نواز کی نسبت اسحاق ڈار کے بیٹے، علی ڈار سے ٹھہری ہوئی تھی۔
اطلاعات کے مطابق ماروی میمن کی ملاقات میاں صاحب سے بھی کروائی گئی ،مگر میاں صاحب کا جھکاؤ اسحاق ڈار ہی کی طرف تھا۔ جس کے بعد ماروی میمن مزیدبھڑک اُٹھیںاور سوشل میڈیا ہی پر نہیں، کئی چینلز پر بھی اس شادی کے مخفی حوالے،جیسے نکاح کا مقام، نکاح خواں کانام،گواہان میں شامل ڈار صاحب کے دو وفاداروں کے نام، منسٹرز کالونی کا وہ بنگلہ ،جہاں نکاح ہوااور نکاح کا وقت بھی سامنےلے آئیں۔بعض ذرایع کے مطابق اشتعال و مایوسی کے عالم میں یہ تفصیلات خود ماروی میمن نے انتقاماً لیک کیں، لیکن تاحال اس بات کی تصدیق نہیں ہو سکی۔
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ کچھ نیک ناموں سے سوشل میڈیا پر ماروی میمن کی کردار کُشی کی مہم بھی شروع کروائی گئی۔ ماروی کو یقین تھا کہ یہ سب کچھ مسلم لیگ (نون) کی جانب سے کروایا جا رہا ہے، لہٰذاانہوں نے متعدّد مرتبہ پریس کانفرنس کی دھمکی دی اور اپنے مقاصد کے حصول کے لیے مسلسل خبروں میں رہیں ۔اور ایک روز بالآخر اپنے مقصد میں کام یاب ہوہی گئیں۔
واضح رہے، نکاح کی یہ تقریب سادہ تو ضرور تھی، لیکن پُروقار ہرگز نہیں کہ اس میں ڈار صاحب کی طرف سے بطور گواہ ان کے دو ملازمین نے دستخط کیے اور یہ معاملہ ’’ماروی لیکس‘‘کے نام سے گردش کرنے لگا۔ اطلاعات کے مطابق ماروی میمن کے حق مہر کی رقم ڈیڑھ ارب روپے تھی، جب کہ ماروی کا کہناتھا کہ ’’مَیں نے صرف سونے کی ایک انگوٹھی کے سوا کچھ نہیں لیا۔‘‘امرِ واقعہ ہے کہ ماروی میمن نے حق مہر کی خطیر رقم چُپ رہنے کے لیے لی تھی اور اس کے بعد وہ واقعی چُپ ہو گئیں۔یاد رہے، ماروی کی یہ دوسری شادی تھی ، جب کہ ا ان کے پہلے شوہر بیرونِ مُلک کاروبار کرتے ہیںاورماروی ور اُن کا ایک بیٹا بھی ہے، جو بیرونِ مُلک زیرِ تعلیم ہے۔
اس سارے عمل میں کون قصوروار تھا اور کون بے قصور یہ تو ہم نہیں جانتے، لیکن امرِ واقعہ ہے کہ اس ’’ازدواجی تنازعے‘‘ میں پاکستان مسلم لیگ (نون) ایک باصلاحیت ،ذہین ، پارٹی کے لیے عملی جدّوجہد ، دفاع اور موثر انداز میں موقف پیش کرنے والی ر ہنما ، کارکن سے محروم ہوگئی۔ پھر ہماری سیاست اور سیاست دانوں میں ایک کمال خوبی یہ بھی ہے کہ وہ پارٹی تبدیل کرنے کے ساتھ ہی اپنے نظریات، آراء سب ہی کچھ تبدیل کر لیتے ہیں اوراس کا علانیہ اظہار کرنے میں بھی کوئی شرمندگی تو دُور کی بات جھجک تک محسوس نہیں کرتے۔
ایک انٹرویو میں ماروی میمن کا کہنا تھا کہ ’’ جب مَیں سیاست میں نہیں آئی تھی، تو مجھے اس کا اندازہ ہی نہیں تھا کہ ہماری سیاست میں کتنا گند ہے، گوکہ میری سیاست پر ہمیشہ نظر رہی ہے، لیکن بالخصوص سیاست دانوں کے بارے میں میری ’’ معلومات‘‘ اتنی زیادہ نہیں تھیں ،مگر جب میں نے باضابطہ سیاست کا آغاز کیا ،ایوان میں گئی تو اندازہ ہوا کہ ہماری سیاست کے تو عجیب و غریب حالات و معاملات ہیں۔‘‘
میاں نواز شریف کے بارے میں ان کے انٹرویو زاور بیانات ریکارڈ پر موجودہیں، جن میں وہ انہیں شان دار الفاظ میں خراجِ تحسین پیش کرتے نہ تھکتی تھیں۔ قومی اسمبلی میں اپنے لیڈر کی حمایت اور موقف کے حق میں ان کی آواز سب سے نمایاں اور انتہائی بلندہوتی۔ عمران خان پر سیاسی التفات ہوا، تو زخمی پائوں لیے وہیل چیئر پر ان کے جلسے میں پہنچ گئیں ،لیکن حالات بدلے تو ان کے بارے میں خیالات بدلنے میں ذرا تاخیر نہیںکی ۔
پہلے کہا کرتی تھیں کہ ’’پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ (نون) نے اقتدار میں باریاں لگائی ہوئی ہیں،جب عمران خان اقتدار میں آئیں گے ،تو ان لوگوں کی صفائی ہوگی اوروہ امورِ مملکت شفّاف انداز میں چلائیںگے۔‘‘ جب کہ یہ بھی آن ریکارڈ ہے کہ کسی زمانے میں وہ عمران خان کو دُہری شخصیت کا مالک قرار دیتی تھیں اور ان کے بارے میں کہتی تھیں کہ ’’عمران خان، جو کہتے ہیں وہ کرتے نہیں ہیں۔‘‘ اسلام آباد میں دھرنے کے دوران جب طاہر القادری نے پی ٹی وی پر حملہ کرنے والوں کی قیادت کا الزام ماروی میمن پر لگایا تو اس حوالے سے بھی ماروی نے شدید الفاظ میں ردّ ِعمل کا اظہار کیا تھا۔شاید اسی طرح کی صورتِ حال پیش نظر رکھتے ہوئے شورش کاشمیری نے ملکی سیاست کو طوائف اور سیاست دانوں کو تماش بینوں سے تشبیہہ دی تھی۔
جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ ماروی میمن اب کہاں ہیں اور کیا کر رہی ہیں، تو اطلاعات کے مطابق اسحاق ڈار اور ماروی میمن کے درمیان طلاق ہو چُکی ہے۔تاہم، اس کا باقاعدہ اعلان نہیں کیاگیا۔اوردونوں کی(ماروی میمن، اسحاق ڈار) متعلقہ دستاویزات کے تعارف اور وکی پیڈیا پر زوجیت کے خانے میں ایک دوسرے ہی کا نام درج ہے۔ ماروی میمن ان دِنوں کراچی میں مستقل سکونت پذیر ہیں ،جہاں وہ ایک اطالوی فنڈڈ این جی او کے لیے کام کر رہی ہیں اور اس حوالے سے اکثر و بیش تر اٹلی، فرانس اور دیگر ممالک کے دَوروں پر رہتی ہیں ۔ (جاری ہے)