• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
مغرب کی شادیوں کا احوال ہم اپنے ایک کالم میں لکھ چکے تو احساس ہوا کہ یہ تو غلطی ہو گئی۔ آغاز چین سے کرنا چاہئے تھا۔ جس کے ساتھ ہم ہمالہ سے بلند سمندر، سمندروں سے گہری اور شہد سے شیریں دوستی کا دعویٰ کرتے ہیں۔ اس بلنڈر پر پریشان ہو رہے تھے تو دفعتاً خیال آیا کہ اس جرم کے مرتکب ہم اکیلے تھوڑی ہیں چین کے ساتھ اب سروس اور مغرب کے ساتھ معاشقہ ہمیشہ سے ہماری قومی پالیسی رہی ہے۔ خیر دیر آید، درست آید تو سن لیجئے کہ چین میں خواتین کی قدرومنزلت بے پناہ ہے جو جنس نایاب تو نہیں جنس کمیاب ضرور ہیں اور 100 مردوں کے مقابلے میں فقط 87 خواتین دستیاب ہیں۔ ایسے میں چینی مردوں کی شادی خانہ آبادی صحیح معنوں میں اسم با مسمی ہوتی ہے۔ ہماری طرح چینیوں کا بھی عقیدہ ہے کہ جوڑے آسمانوں پر بنتے ہیں ان کی لوک داستانوں میں چاند دیوتا کا ذکر آتا ہے۔ جو دیگر فرائض منصبی کے علاوہ عشق ومحبت کا پورٹ فولیو بھی سنبھالے ہوئے ہے اور جو روز اول سے ہی میاں بیوی کو سرخ رنگ کی ڈوری سے باندھ دیتا ہے۔ شادی کا وقت آتا ہے تو دنیا میں وہ جہاں کہیں بھی ہوں ایک دوسرے کی جانب کھنچے چلے آتے ہیں اور یوں ملاپ ہو جاتا ہے۔
چینی متھالوجی میں سرخ رنگ کی بھی خاص اہمیت ہے جسے بے پناہ راحت ومسرت اور برکت کے سمبل کے طور پر لیا جاتا ہے میاں بیوی کو باندھنے والی سرخ ڈوری کے علاوہ شادی کی ہر ہر رسم میں سرخ رنگ کا راج ہوتا ہے۔ پہناووں، دعوتی کارڈز، گفٹ باکسز اور کیش کے لفافوں سے لیکر ویڈنگ مال اور حتیٰ کہ دولہا کے گھر کی تزئین و آرائش تک ہرجانب سرخی بکھری دکھائی دیتی ہے۔ پھولوں کا تو خاص خیال رکھا جاتا ہے کہ بہرطور سرخ ہوں اور کوئی دوسرا رنگ در نہ آئے۔ یورپی شادیوں میں جہاں ہر طرف سفید پھولوں کی بہار ہوتی ہے چینی انہیں نحوست کی علامت شمار کرتے ہیں جو محض غمی کے موقع پر استعمال کئے جاتے ہیں۔ مشرق کی روایت کے مانند چینیوں کے نزدیک بھی شادی محض دو انسانوں کا ملاپ نہیں ہوتا بلکہ دو کنبوں کی قربت کا موجب بنتا ہے۔ لہٰذا شادی کی تمام تر تفصیلات بڑے بزرگ ہی طے کرتے ہیں اور اس بہانے ایک دوسرے کے گھر کے خوب چکر لگتے ہیں۔ شادی کی تاریخ کے تعین کیلئے خصوصی اہتمام کیا جاتا ہے شبھ دن اور شبھ گھڑی کی تلاش کیلئے ستارہ شناسوں کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں۔ دولہا کی طرف سے دلہن کیلئے بری لے جانے کا رواج چینیوں کے ہاں بھی ہے جسے وہ گرینڈ گفٹس کا نام دیتے ہیں۔
چینی روایت میں 9 کے عدد کو بے حد اہمیت حاصل ہے ان کے علم الاعداد کے مطابق 9 کے عدد سے تشکیل پانے والے چینی لفظ کا مطلب ہے ”ہمیشہ قائم رہنے والی“ چنانچہ شادی کو پائیدار بنانے کیلئے 9 کے عدد کا بکثرت استعمال کیا جاتا ہے۔ آپ نے کوئی تحفہ دینا ہے تو 9 کی تعداد پوری کرنا ہو گی مثلاً کوئی جواب دینا ہے تو 9 جوڑ سے دے گا۔ کسی نے رومال دینا ہیں تو 9 عدد ہوں گے۔ کوئی پھل دینا چاہتا ہے تو 9 دانے ہوں گے۔ یہ 9تو کم از کم ہے آپ نے زیادہ کرنا ہے تو کوئی حد نہیں، آپ 99، 999، 9999، علی ہذا القیاس کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ مگر 9 کے چکر سے باہر نہیں نکلنا۔ چنانچہ سلامی وغیرہ بھی اس حساب سے دی جاتی ہے۔ راقم کو دولہا کی جانب سے دیئے گئے شادی کے کھانے یعنی دعوت ولیمہ میں شرکت کا موقع ملا۔ ویڈنگ ہال کی آرائش قابل دید تھی۔ ہر طرف بکھری سرخی کا یہ عالم کہ گویا پورے ماحول کو بحرہ احمر میں ڈبکی دیکر چین کے اس قصبے میں رکھ دیا گیا ہو۔ روایتی چینی کھانا جس میں غیرملکی مہمانوں کے ذوق وضرورت کا بھی خیال رکھا گیا تھا۔ ہمارے ہاں کی طرح سلامی کا رواج وہاں بھی تھا۔ مگر وصولی کا طریق کار انوکھا۔ اگراہی ہال کے مرکزی دروازہ پر ہی کی جا رہی تھی۔ مہمان ویڈنگ بک پر اپنا نام اور سلامی میں دی جانے والی رقم کا اندراج کرتے اور سرخ لفافہ اٹینڈنٹ کو تھما دیتے۔ یہاں بھی 9 کے عدد کا راج تھا۔ سلامی کی رقوم بہ اہتمام 9، 99، 999 یا 9999 یوآن پر مشتمل تھیں تاکہ بدشگونی کا احتمال نہ رہے۔ بیجنگ کے نواحی علاقے شن لی کے اس ویڈنگ ہال کے سامنے کھڑے راقم کو یوں لگا کہ گویا پاکستان ہی کے کسی گاؤں کی شادی میں شریک ہو۔ فرق صرف اتنا تھا کہ ہمارے ہاں شادیوں میں نام اور سلامی کی رقم کا اندراج مہمان خود نہیں کرتے بلکہ یہ فریضہ کسی اور کے ذمہ ہوتا ہے مگر اندراج کا مقصد وہی تھا کہ یہ لفافے فری میں نہیں مل رہے۔ کل کو لوٹانے بھی ہیں۔ مہمانوں یا ان کے بچوں کی شادیاں بھی تو ہونا ہیں۔
رخصتی کا منظر بھی مشرقی رنگ لئے ہوتا ہے۔ دلہن کو گاڑی میں بٹھانے کا فریضہ کسی بھاگوان کے ذمہ ہوتا ہے جو شوہر اور بچوں والی ہو اور ماں باپ اور ساس سسر بھی حیات ہوں اس دوران دلہن کی بہن سہیلی اس پر سرخ رنگ کی ننھی سی چھتری تانے رکھتی ہے اور دوسرے ہاتھ سے اس کی نشست پر مٹھی بھر چاول پھینک دیتی ہے۔ گاڑی کے پیچھے سرخ رنگ کی چھلنی اور آئینہ باندھنے کا رواج بھی ہے جسے بدروحوں سے دلہن کے تحفظ کا موجب سمجھا جاتا ہے ہمارے ہاں تو رواج نہیں رہا مگر چین میں آج بھی دلہنیں رخصتی کے وقت آنسو ضرور بہاتی ہیں اور ماں آخری پیار کے بعد اسے پندونصائح کے ساتھ رخصت کرتی ہے۔ چینی دلہنیں مایوں بھی بیٹھتی ہیں۔ شادی سے چند ہفتے پہلے باہر نکلنا چھوڑ دیتی ہیں اور گھر میں زیادہ سے وقت والدین، بہن بھائیوں اور سکھیوں سہیلیوں کے ساتھ گزارتی ہیں۔ چین میں جہیز کا رواج بھی ہے۔ جو نئے گھر کی بنیادی ضروریات پر مشتمل ہے اور شادی سے 9 دن پہلے دولہا کے گھر پہنچا دیا جاتا ہے۔
چینی شادیوں میں لی شی منی بھی ایک خاصے کی چیز ہے۔ ہمارے ہاں شادی کی تقریب میں مختلف مواقع پر ہونے والے خرچوں کو مختلف ناموں سے پکارا جاتا ہے۔ جیسے سلامی، منہ دکھائی، رخصتی خرچہ وغیرہ۔ چینی ان سب مواقع کے اخراجات کیلئے صرف ایک جادوئی لفظ استعمال کرتے ہیں۔ ”لی شی منی“ لی شی کا مطلب ہے Good luck for ever یعنی دائمی خوش بختی۔ لی شی منی سے دولہا بھی مبرا نہیں۔ بارات روانہ ہوتی ہے تو دولہا لی شی منی الگ سے سرخ رنگ کے لفافے میں رکھ لیتا ہے جو حسب حیثیت 9999, 999, 99 یا اسی ترتیب سے کچھ بھی ہوسکتی ہے ضروری رسومات کے بعد وہ یہ رقم دلہن کے لواحقین کی نذر کر دیتا ہے جس کا مطب یہ ہوتا ہے کہ اب دلہن کوجانے دیا جائے۔ رخصتی کے وقت والدین کی طرف سے بیٹی کو دیئے جانے والے پیسوں کو بھی لی شی منی کہتے ہیں۔ حتیٰ کہ ولیمہ کے موقع پر دولہا کوملنے والی سلامیوں کو بھی لی شی منی کا نام دیا جاتا ہے یوں چینیوں نے اس حوالے سے کافی سہولت پیدا کر رکھی ہے کہ تین چار ناموں کے بجائے فقط لی شی سے کام چلا لیتے ہیں اور مطلب برآری بھی خوب ہو جاتی ہے۔ ایک عمدہ وش اور دعا کی صورت میں … "Good luck for ever" ظاہر ہے کہ کسی نوبیاہتا جوڑے کو ”دائمی خوش بختی“ سے بہتر اور کیا دعا دی جا سکتی ہے؟ گو آج کل ماڈرن شادیاں بھی ہو رہی ہیں، مگر رسوم ورواج اور روایات واقدار کے پاسداروں کی چین میں آج بھی کوئی کمی نہیں۔
تازہ ترین