• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
SMS: #SMM (space) message & send to 8001
صحت اور تندرستی کا سفر انسان کے ساتھ ساتھ ہم قدم رہتا ہے مگر کسی کی علالت کو بھی تختہ مشق بنا لینا بیمار ذہنیت کی علامت ہے جو بہرحال ہر انسان کا نہیں بلکہ چیدہ چیدہ افراد کا مسئلہ ہوا کرتا ہے۔ وزیر اعظم نواز شریف گزشتہ کچھ سالوں سے اس بیماری کا سامنا کر رہے ہیں اور یہ کوئی راز نہ تھا۔ مگر یار لوگوں نے اس موقع پر بھی الزام تراشی کا اپنا وظیفہ ترک نہ کیا۔ اس شخص کے حوالے سے جو دوڑتی ہوئی انتخابی مہم کو اپنے حریف کے ساتھ پیش آنے والے حادثہ کے سبب سے ملتوی کر چکا تھا۔ راقم الحروف لندن میں برادرم خالد جو وہاں پی ایچ ڈی میں منہمک ہے اور چوہدری تنویر کی میز بانی سے لطف اندوز ہوتا رہا۔ جس دن میاں نواز شریف کی عیادت کی غرض سے روانہ ہونے لگا تھا تو یکدم خالد نے سوال کیا کہ آپ میاں نواز شریف کی سیاست اور معاشی حکمت عملیوں کے مداح تو ہیں مگر ان کی ذاتی شفقتوں کا بھی بار بار ذکر کر رہے ہیں تو آخر و ہ ہیں کیا؟ ہم میاں نوازشریف کی قیام گاہ کی جانب محو سفر تھے ۔ میں گویا ہوا کہ میں ذاتی تجربے سے گزر چکا ہوں کہ وہ کسی کی مدد کرنے کے حوالے سے کتنے شفیق انسان ہیں۔ بات یہ ہے کہ میری والدہ2009ء میں اسپتال میں زیر علاج تھی اور وہیں پر داغ مفارقت دے گئیں۔ میاں نوازشریف کو ان کی علالت کا علم ہوا تو انہوں نے رابطہ کیا اور بار بار پوچھتے رہے کہ کسی نوعیت کی مدد درکار ہے جب گفتگو ختم ہو گئی تو انہوں نے مجھے ایک ایس ایم ایس کیا کہ "I am at your disposal" یہاں تو کوئی کلف کے کپڑے پہن لے تو اس پر خود بھی کلف چڑھ جاتا ہے مگر اس وقت ملک کا دو دفعہ وزیر اعظم رہنے والا انسان میری ذاتی مشکلات دور کرنے کے واسطے بیقرار تھا۔ابھی میں ان کی مزید شفقتوں کا ذکر کرنے والا تھا کہ سامنے میاں نواز شریف کی قیام گاہ تھی۔ خالد کو الوداع کہا اور ان سے ملاقات کی غرض سے اندر داخل ہو گیا۔ وہ بیگم کلثوم نواز صاحبہ اور حسین نواز کے ہمراہ موجود تھے۔ دل کی جراحی سے گزرنے کے بعد کچھ نقاہت ہونا ایک عمومی بات ہے۔ میں ان سے اپنی سعودی عرب میں ہونے والی ملاقاتوں اور آج کی ملاقات کا موازنہ کر رہا تھا کہ اس وقت بھی نامساعد حالات کے باوجود وہ ہشاش بشاش تھے اور آج اس بیماری کا مقابلہ کرنے کے بعد بھی ان کی طبیعت کی بشاشت اپنی جگہ قائم تھی۔ ان کی گفتگو میں پاکستان میں ہونے والی سیاسی ڈرامہ بازی کو کوئی اہمیت حاصل نہ تھی بلکہ وہ پاکستان کی معاشی ترقی ، توانائی کے بحران کے خاتمہ اور امن و امان کی مکمل بحالی کے گرد تھی۔ کیونکہ سماجی ترقی کی بنیادیں یہی ہیں۔ دوران ملاقات ہی کچھ سرکاری امور کے حوالے سے انہوں نے ہدایات دیں کہ اس کی بریفنگ تیار کی جائے۔ اور میں سوچ رہا تھا کہ کتنے نادان ہیں یہ لوگ کہ جوتصور کر رہے ہیں کہ وزیراعظم ریاستی امور سے دور ہیں۔ صرف معالجین کی اجازت درکار ہے کہ جس کے بعد وہ وطن کی مٹی کو بوسا دینے دوبارہ ہم وطنوں کے درمیان ہوں گے۔ ملاقات کے اختتام کے بعد خالد باہر منتظرتھا ۔ مجھے دیکھتے ہی اس نے ایک سوال اور پوچھ ڈالا کہ یہ سازشی کہانیوں والےباز کیوں نہیں آتے۔ لندن میں کئے گئے کسی آپریشن پر سوال کرنا صرف اپنی کم علمی یا دشمنی کو ظاہر کرنے والی بات ہے۔ یہاں تو اگر وزیر اعظم برطانیہ بھی چاہے کہ ان کا جعلی میڈیکل بل ہی بن جائے تو یہ ممکن نہیں ہے۔ تو بھلا کسی غیر ملکی کے جعلی آپریشن کا سوال ہی کیسے پیدا ہوتا ہے،یہ کیسی ذہنیت ہے؟ میں نے کہا کہ اس ذہنیت کی جھلکیاں بار بار نظر آتی ہیں۔ مثلاً میاں نوازشریف کے اپنے والدین کے احترام اور اپنے والد کی قدر کی دھوم تھی اور ہے۔ مگر ان کے دشمنوں نے ان کی اس تربیت کو مشق ستم بنا ڈالا جو لوگ والدین کے احترام پر فقرے کسنے سےباز نہ آئے ان سے اور کیا توقع کی جا سکتی ہے۔ مگر میرا میاں نوازشریف کے حوالے سے مشاہدہ ہے کہ وہ اس طرح کی کسی منفی مہم سے اپنے ارادوں کو مزید پختہ کریں گے۔ میں نے ابھی میاں نوازشریف کے والد کا ذکر کیا ان سے سعودی عرب میں ملاقات ہوئی اس کی تفصیل تو پھر صحیح، مگر ان کی شخصیت کا خاصہ عزم تھا۔ جنرل امرائو خان 1960ء کے عشرے کے بالکل ابتداء میں ایک سرکاری ادارے کے چیئرمین تھے۔ انہوں نے اپنی خود نوشت میں تحریر کیا ہے کہ ہمارے سامنے 1960ء کے عشرے میں بڑا مسئلہ یہ تھا کہ ملک میں کسانوں کی ضروریات کے لئے کوئی تھریشر مشین نہیں بن رہی تھی۔ اور ہم گولہ بارود اور دیگر چیزیں بنانے کے سبب سے تھریشر بنا نہیں سکتے تھے ۔جو ملکی زراعت کے لئے ایک بہت بڑا مسئلہ بن گیا تھا۔ فیصلہ یہ ہوا کہ اتنے بڑے پروجیکٹ کے لئے میاں شریف سے درخواست کی جائے کہ وہ اپنی فائونڈری میں تھریشر تیار کروائیں۔ اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے پورے ملک میں اتفاق تھریشر چھا گیا۔ مگر انہی میاں شریف کی خون پسینے کی کمائی راتوں رات قومیانے کے نام پر لوٹ لی گئی۔ میاں شہباز شریف بیان کرتے ہیں کہ جس دن یہ واقعہ ہوا اس کے اگلے دن میرے والد اپنے وقت پر علی الصبح تیار ہوئے اور مجھے بھی بیدار کر کے ساتھ چلنے کا کہا کہ کام پر چلنا ہے میں حیران ہوا کہ یہ سب کچھ لٹنے کے بعد اگلے دن سے ہی دوبارہ مستعد ہیں۔ میں خالد سے مخاطب ہوا کہ میاں نواز شریف کے والد سب کچھ لٹنے کے بعد بھی اپنی ہمت و حوصلہ َخزانے کے طور پر اپنے پاس رکھتے تھے۔ اور میاں نوازشریف نے حوصلہ ورثے میں ہی پایا ہے۔ بدخواہوں کو حسد میں جلنے دو۔
تازہ ترین