• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جان پدر ، لخت جگر، نورِ نظر!
السلام علیکم!
مجھ سےکئی لوگ پوچھتے ہیں کہ آپ کا نام شیخ ظاہر شاہ ہے۔ آپ بیک وقت شیخ اور شاہ کیسے ہوگئے؟ میں انہیں ہمیشہ اس کا گول مول جواب دیتا ہوں۔ بس اتنا ہے کہ جو لوگ جانتے ہیں میں اسراف اور فضول خرچی کو اسلام کے منافی سمجھ کر بے جا دولت لٹانے سے گریز کرتا ہوں، وہ مجھے شیخ صاحب کہتے ہیں اور جو لوگ میرے دینی کردار سے واقف ہیں وہ مجھے شاہ صاحب کہہ کر پکارتے ہیں اورمیرے شیخ ہونے کووہ عربی والا شیخ سمجھتے ہیں جبکہ حقیقت میں تمہیں آج بتانے جارہاہوں۔میں نہ شیخ ہوں او ر نہ شاہ۔کاروباری حلقو ں میں شیخوں، خصوصاً چنیوٹ کے شیخوں کی بہت ساکھ ہے۔ چنانچہ جب میں نےکاروبارمیں قدم رکھاتو اپنے نام کے ساتھ شیخ لکھنا شروع کردیا۔ اس کا ایک فائدہ یہ بھی ہوا کہ جب میں کاروبار کے سلسلے میں دبئی جاتاہوں تو وہاں لوگ مجھے ’’یاشیخ‘‘ کہتے ہیں۔ باقی رہا ’’شاہ‘‘ کہلانے کا مسئلہ تو تم نےبرنارڈ شا کا نام تو سنا ہوگا، اگرایک عیسائی ’’شا‘‘ ہوسکتا ہے تو میں بحمد للہ مسلمان ہوں۔ ویسے اس کا پس منظر یہ ہے کہ کچھ بدبخت میری سیاہ رنگت کا ذکر کرتے ہوئے مجھے’’کالا شا‘‘قرار دیتے تھے، پھر انہوں نے مجھے زِچ کرنے کے لئے طنزیہ طور پر ’’شا‘‘ بنا دیا جب یار لوگوں نے مجھے ’’شاہ صاحب‘‘کہناشروع کیاتو میں نےبھی اپنے نام کے ساتھ ’’شاہ‘‘ کااضافہ کرلیا۔ اس سے میرے کاروبار کو دن دوگنی اور رات چوگنی ترقی ملی۔ ایک تو میں نمازروزے کا پابند اور اوپر سے شاہ صاحب چنانچہ جو لوگ لفظ ’’شاہ‘‘ کے پس منظرسے واقف نہ تھے انہوں نے آنکھیں بند کرکے مجھ پر اعتماد شروع کردیا۔ ان میں سےکئی دیوالیہ ہوچکے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی حالت پر رحم کرے۔
بیٹے! میں نے یہ ساری تفصیل تمہیں اس لئے بتائی ہے کہ میرے نزدیک عبادات اور معاملات دو الگ الگ چیزیں ہیں۔ ہمارے علما بھی زیادہ زورعبادات پر دیتے ہیں چنانچہ آج تک کسی مسجد یا کسی دینی مدرسے کے مہتمم نےمیرے عطیات وصول کرتے ہوئے یہ تحقیق نہیں کی کہ یہ رقم حلال یا حرام ذرائع سےکمائی گئی ہے کہ وہ جانتے ہیں میں نمازی پرہیزگار آدمی ہوں اور حلال حرام کاخیال رکھتاہوں۔ تمہیں بھی میری نصیحت ہے کہ جب کبھی یورپ وغیرہ جائو تو ہمیشہ حرام حلال کا خیال رکھو، حلال فوڈوالے ریستوران سے کھاناکھائو۔ اگر حلال فوڈ نہ مل سکے تو سبزیوں پرگزارہ کرو۔ اسی طرح جہاں کہیں بھی ہو طہارت کا خاص خیال رکھو۔ پیشاب کا قطرہ جہنم کی آگ کا سبب بنتاہے۔ ٹوتھ پیسٹ وغیرہ استعمال کرنے کی بجائے نیم یا کیکر کی مسواک کی عادت ڈالو، ایک تو یہ سستی ہوتی ہے اور دوسرے علما نےمسواک کے بہت فضائل بیان فرمائے ہیں۔اس سے کئی لاکھ نمازوں کا ثواب ملتا ہے۔ پانی پیو تو بیٹھ کر پیو، برتن دائیں ہاتھ سے پکڑو، اسی طرح باتھ روم جائو تو پہلے دایاں پائو اندر رکھو، غسل بہت کم کرتے ہو کیا بات ہے سادھو ہو یاغسل کے بارے میں احکامات کاتمہیں علم نہیں ہے۔
میرے حاسد مجھ پراعتراض کرتے ہیں کہ میں بہت وعدہ خلاف ہوں۔ وہ ٹھیک کہتے ہیں مگر وہ نہیں جانتےکہ میں دل کابے حد نرم ہوں۔ میں کسی کا دل نہیں توڑ سکتا چنانچہ اس کا دل رکھنےکے لئے وعدہ کرلیتاہوں جسے وہ صحیح سمجھ بیٹھتا ہے۔ یہ اس کی اپنی نادانی ہے جس کا میں ذمہ دار نہیں ہوں۔ مجھےلوگ ایک حدیث کا حوالہ دیتے ہیں کہ حضورﷺ نےفرمایا جووعدہ خلاف ہے وہ ہم میں سے نہیں ہے۔ میں حضرت مولانا مدظلہ العلیٰ سے گزارش کروںگا کہ وہ تحقیق کرکے بتائیں یہ حدیث مستند ہے یا ضعیف ہے؟ مجھےیقین ہے کہ حضرت مفتی صاحب مدظلہ مجھے مایوس نہیںفرمائیں گے! تم بھی میرے بعد ایسے معاملات میں حضر ت مفتی صاحب ہی سے رجوع کرلیاکرنا۔
بیٹے! میری ایک نصیحت یادرکھنا۔ پے منٹ کبھی وقت پہ نہ کرنا۔ جب کوئی پے منٹ لینے آئے تو قسم کھا کر کہہ دو کہ تمہارےپاس ایک پیسہ بھی نہیں ہے۔ اگروہ تمہاری تلاشی لیناچاہے تو شرم نہ کرو۔ شرم آنی جانی چیزہے۔ جب وہ دس بارہ چکر لگالے تو پھر پے منٹ کردیا کرنا۔ یہ چکر لگوانا بہت ضروری ہیں۔ ایک تو اس لئے کہ یہ کاروباری اصول ہے۔ دوسرے اس لئے کہ جو چیز مشکل سے ملے اس کی قدر ہوتی ہے چنانچہ پے منٹ وصول کرنے والابہت خوش ہوگا۔ ممکن ہے وہ خوشی سے بے ہوش ہو جائے۔ اس صورت میں اس کے منہ پر پانی کے چھینٹے مارنا، اگر منرل واٹر ہو تو وہ ضائع نہ کرنا۔ اس کی بجائے اپنی جوتی سونگھا کر اسےہوش میں لانے کی کوشش کرنا۔ اسے چکر لگوانے کا تیسرافائدہ یہ ہے کہ ہماری مالی حالت کے بارے میں وہ سمجھے گا کہ خاصی کمزور ہے اور اس کاچوتھا فائدہ یہ ہوگاکہ وہ کبھی ادھار نہیں مانگے گا۔میں نےمحسوس کیا ہے کہ تمہیں غریبوں کی فکر زیادہ رہتی ہے۔ مزدوروں کے حقوق کی بات زیادہ کرتے ہو، استحصال کے خلاف بولتے رہتے ہو، ذخیرہ اندوزی، اسمگلنگ، منافع خوری، ملاوٹ، بے ایمانی، کرپشن، رشوت دینا اور لینا، وعدہ خلافی اور جھوٹ وغیرہ کے خلاف تمہارے قول اور عمل میں بہت شدت ہے لیکن یہ شدت نماز روزے میں نظر نہیں آتی۔ مسجد جاتے ہو تو کسی کو تمہاری آمد کاپتہ ہی نہیں چلتا۔روزہ رکھتے ہو تو بغیر کسی کو کچھ جتائے اپنےسارے کام معمول کے مطابق کرتے ہو۔ بیٹے! عبادات کااعلان کرنا بہت ضروری ہوتا ہے۔ اس سے نیکی کو فروغ ملتاہے۔ مسجد جائو تو اندر داخل ہوتے ہی زور سے کھنگورا مارو۔ اس سے ایک تو گلا صاف ہوتاہے اور دوسرے لوگوں کو پتہ چلتا ہے کہ کوئی مردِ مومن مسجد میں داخل ہوا ہے۔ اگر ہو سکے تو ببن میاں عطرفروش سے عطر کی ایک سستی سی خوشبو خریدکر ساتھ لے جایاکرو اور ایک ایک نمازی کے پاس جا کر اس سے سلام دعا لو اوراس کے کپڑوں پر یہ عطر لگائو۔ کچھ ناسمجھ لوگ تمہیں اس سے روکیں گے اور کہیں گےکہ اس عطر کا نشان دھونے سے بھی نہیں جاتا تم انہیں کہنا کہ تمہیں اپنے کپڑوں کی پرواہے میرے خلوص کی نہیں۔ اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ جس نمازی کو جب بھی اپنے کپڑوں پر عطر کا داغ نظر آئے گا اسے تمہارا مسجد میں باقاعدگی سے آنا یاد آجائے گاچنانچہ اگر تم کبھی کسی بھی جرم میں پکڑےگئے تو لوگ تمہاری گواہی دیں گےکہ یہ نیک آدمی ہے۔ نماز روزے کاپابند ہے۔ ہمارا معاشرہ رزق ِحلال، امانت اور دیانت کو کسی کے نیک ہونے کی علامت نہیں سمجھتا بلکہ اس کے لئے اس کا صرف نمازی ہونا کافی ہے۔ اسی طرح جب روزہ رکھو تو تھوڑی تھوڑی دیربعد کہو ’’روزہ بہت لگ رہا ہے‘‘ ورنہ تمہیں لوگ روزہ خور ہی سمجھیں گے۔ عزیز از جان بیٹے! یہ باتیں دکھاوے کے زمرے میں نہیں آتیں بلکہ جیسا کہ میں نے شروع میں کہا کہ یہ نیکی کے فروغ کے لئے ہیں۔ تمہیں یاد ہے کہ میں ایک دفعہ الیکشن میں کھڑا ہوا تو میں نےاپنی تصویر کی جو بڑی بڑی ہورڈنگز بنوائی تھیں، وہ میں نے پینٹر کو واپس کردیں کیونکہ اس نے میرے ماتھے پر محراب کا نشان برائے نام بنایا تھا چنانچہ اس نے روپے کے سائز کا محراب کا نشان بنایاتو بھی میں نے اس کی ادائیگی اس سے کافی چکر لگوانےکے بعدکی۔میرے حریف نے مشہور کر دیاکہ میرے ماتھے پہ محراب کاجو نشان ہے یہ نمازوں کی وجہ سے نہیں بلکہ سگریٹ بجھانے کی وجہ سے ہے لیکن ان کی یہ سازش ناکام ہوئی کیونکہ سب کو پتہ تھا میں سگریٹ نہیں پیتا!
تازہ ترین