• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
’’مسلمانوں کو ایک امہ اور پاکستانیوں کو ایک قوم بنانے کا آغاز سرکاری سطح پر شروع کردیا گیا تھا جس کے پہلے مرحلے میں ملک کی تمام مساجد کو سرکاری تحویل میں لیا گیا جس کے لئے وزارت مذہبی أمور نے تمام مساجد میں اعلیٰ ترین دینوی و دنیاوی تعلیم کے حامل سول سروسز آفیسرز کو ہر مسجد میں بطور امام تعینات کیا تھا جس کی تیاری کافی عرصے سے کی جارہی تھی ، سول سروس کے محکمے نے حفاظ کرام جن کی دنیاوی تعلیم کم از کم گریجویٹ ہو کو مقابلے کا امتحان پاس کرنے کی دعوت دی اور ذہین ترین حفاظ کرام جو مقابلے کا امتحان پاس کر چکے ان کو سول سروسز کی تربیت فراہم کرکے سترہ گریڈ میں ملازمت دے کر ہر مسجد میں بطور امام تعینات کردیا ، ہر امام مسجد کے پاس اپنے علاقے کے مجسٹریٹ کا چارج بھی تھا جو ہر طرح کے سرکاری کاغذات کی تصدیق کا اختیار بھی رکھتا تھا ، مساجد میں ہر جمعے کا خطبہ وزارت مذہبی أمور میں موجود تمام مکاتب فکر کے علماء کرام کی جانب سے تیار کیا جاتا ، ملک میں ہونے والی اس تبدیلی سے علاقے میں امام مسجد کی اہمیت میں اضافہ ہوا ، پہلے جہاں گائوں دیہات میں علاقے کا چوہدری بھی امام مسجد کو ذاتی ملازم سمجھتا تھا اور بعض دفعہ جماعت بھی یہ کہہ کر لیٹ کرادیتا تھا کہ میں کچھ دیر سے پہنچوں گا جماعت دیر سے کرالینا ، اب اسکے لئےبھی سترہ گریڈ اور مجسٹریٹ کے اختیار رکھنے والے سرکاری افسر پر اپنی چوہدراہٹ دکھانے کے مواقع ختم ہوگئے تو دوسری جانب حکومت کا بھی سرکاری خطبے کے ذریعے دور دراز کے عوام سے رابطہ برقرار ہوگیا اور حکومت کو بھی ملک اور عوام کی سمت متعین کرنا آسان ہوگیا ،ملک میں انتہاپسندی کو روکنا آسان ہوگیا تو عوام کو امام مسجد کی صورت میں ایک رول ماڈل بھی حاصل ہوگیا جو سترہ گریڈ کا سرکاری افسر تھاجسے حکومت کی جانب سے گھر اور گاڑی سمیت بہترین سہولتیں حاصل تھیں‘‘۔اوپر بیان کردہ تفصیلات ایک خوبصورت خواب کی طرح ہمیشہ میرے ذہن میںرہتی ہیں لیکن اس خواب کو حقیقی جامہ پہنانا آسان کام نہیں ہے ، حقیقت یہ ہے کہ انتہا پسندی کے راستے میں ہم جہاں تک نکل گئے ہیں وہاں سے واپسی کا سفر کافی کٹھن ہے جبکہ ہمارے سادہ لوح عوام کو مذہب کے نام پر اتنے فرقوں میں تقسیم کردیا گیاہے کہ قوم کو ایک لڑی میں پرونا اب انتہائی مشکل أمر ہے، لیکن اگر حکومت چاہے تو منزل کی جانب سفر کا آغاز کرکے قوم کو انتہاپسندی سے نکال سکتی ہے خاص طور پر ہماری حکومت جو أربوں ڈالر کا نقصان دہشت گردی کی صورت میں برداشت کررہی ہے صرف لاکھوں ڈالر کے اخراجات سے ملک کی باگ دوڑ اور سمت کا تعین اپنے ہاتھ میں لے سکتی ہے ۔اب سے پہلے اتنی طویل جدوجہد ملک میں موجود حکومتوں کے لئے مشکل ہی لگتی تھی لیکن حال ہی میں پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما اور آصف علی زرداری کے قریبی ساتھی سینیٹر ڈاکٹر قیوم سومرو جو وزیر اعلیٰ سندھ کے مشیر برائے مذہبی امور بھی ہیں کی جانب سے کئے جانے والے چند اہم اقدامات نے کافی متاثر کیا ہے ، خاص طو ر پر سندھ میں موجود ساڑھے چار لاکھ سے زائد مساجد میں جمعے کے روز ایک ہی خطبے کے حوالے سے کافی ہوم ورک مکمل کرلیا گیا ہے جس میں صوبے کی تمام اہم سیاسی و مذہبی جماعتوں کی حمایت حاصل کی گئی ہے جبکہ تمام مکاتب فکر کے علمائے کرام کی مشاورت سے کمیٹی بھی قائم کی گئی ہے جو ہر ہفتے سرکاری خطبے کو حتمی شکل دے گی۔ تمام معاملات کو قانونی شکل دینے کے لئے عنقریب ایک بل بھی سندھ اسمبلی میں پیش کیا جانے والاہے ۔منظوری کے بعد جمعے کے روز ایک ہی خطبے کو قانونی شکل دے دی جائے گی جس سے امید ہے کہ نہ صرف سندھ بھر میں مذہبی ہم آہنگی میں اضافہ ہوگا بلکہ سب ایک ہی قوم کے روپ میں نظر آئیں گے ، ڈاکٹر قیوم سومرو کی تمام مکتب فکر کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے کی کوششیں اس لئے بھی قابل تعریف ہیں کہ قیام پاکستان کے بعد سے اب تک ہمارے حکمرانوں اور مذہبی رہنمائوں نے قوم کو سیاست اور مذہب کے نام پر تقسیم ہی کیا ہے کسی نے بھی قوم کو سیاست یا مذہب کے نام پر اکٹھا کرنے کی کوشش نہیں کی ۔ ڈاکٹر قیوم سومرو مذہبی سیاست میں اتنا بڑا مقام نہیں رکھتے لیکن سندھ میں ایک ہی خطبے کے ایشو پر ملک کی تمام مذہبی جماعتیں ان کے ساتھ ہیں صرف سیاسی جماعتیں ہی نہیں بلکہ پاک فوج کی اعلیٰ قیادت نے بھی ڈاکٹر قیوم سومرو کی کوششوں کو سراہا ہے ۔ اپیکس کمیٹی کے ایک اجلاس کے موقع پر آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے بھی ڈاکٹر قیوم سومرو کی تعریف کرتے ہوئے تمام شرکاء کو ڈاکٹر سومرو کے نقش قدم پر چلنے کی تلقین بھی کی ، مذہب کے حوالے سے قوم کو ایک نقطے پر اکٹھا کرنے کے حوالے سے ڈاکٹر قیوم سومرو نے جس سفر کا آغاز کیا ہے وہ کوئی آسان سفر نہیں ہے اس سفر میں مشکلات بھی ہیں، جان کو لاحق خطرات بھی بہت ہیں لیکن ڈاکٹر قیوم سومرو شاید ان تمام مشکلات سے آگا ہ ہیں ، اس حوالے سے یہ بھی اطلاعات مو صول ہوئی ہیں کہ کئی دفعہ انتہائی خطرناک حالات میں جب مسلک کے حوالے سے دو گروہوں میں تصادم انتہائی قریب تھا اس موقع پر ڈاکٹر قیوم سومرو اپنی جان کی پروا نہ کرتے ہوئے رات دو بجے مجمع سے بھرپور جائے وقوع پر اکیلے اور بغیر سیکورٹی کے پہنچے اور معاملات کو افہام و تفہیم سے حل کرایا ،ڈاکٹر قیوم سومرو سے ہونے والی ملاقات میں یہ بھی معلوم ہوا کہ ان کی وزارت مذہی امور نے سندھ بھر میں موجود دس ہزار سے زائد مدارس کی رجسٹریشن مکمل کرلی ہے جس کے بعد حکومت سندھ ان مدارس میں پڑھنے والے بچوں کی تعدا د ،ملک وبیرون ملک سے ملنے والے فنڈز ،مدارس کی مکمل آمدنی اور اخراجات کی تفصیلات سے بھی آگاہ ہے جو بلاشبہ خوش آئند اقدام ہے ، سندھ کی حد تک ڈاکٹر قیوم سومرو کی جانب سے کئے جانیو الے اقدامات قابل تعریف ہیں تاہم اس وقت ضرورت تو یہ ہے کہ پورے ملک میں ایک ہی خطبے کے حوالے سے قانون نافذ کرایا جائے لیکن سندھ کے علاوہ کسی اور صوبے میں اس مسئلے پر کوئی اہم کام نظر نہیں آرہا ، خیبر پختوانخوا میں بھی ایک خطبے اور مدارس کی رجسٹریشن کے حوالے سے مکمل معلومات میڈیا میں نظر نہیں آرہیں ، صرف یہی معلوم ہوا کہ ایک مدرسے کو بیس کروڑ سے زائد کی مالی امداد دی گئی ہے جس پر پاکستان سمیت عالمی سطح پر تنقید کی گئی ، ہونا تو یہ چاہئے کہ تمام صوبے سندھ کی پیروی کرتے ہوئے اپنے صوبے میں ایک خطبے کا قانون لاگو کرائیں جبکہ ہر سطح پر ملک میں انتہا پسندی کو کم اور پھر ختم کرنے کے لئے اقدامات کئے جائیں لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ سندھ کے علاوہ کسی اور صوبے میں ایسا ہوتا نظر نہیں آرہا۔
تازہ ترین