• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کیا زمانہ تھا، 59-1958 کےگورنمنٹ کالج لاہور میں مباحثوں کا دور تھا۔ کراچی سے معراج محمدخان اور فتح یاب علی خان اور پنجاب یونیورسٹی سے ارشاد کاظمی اور میں مباحثےکےآخر میں ایک دوسرے کے سامنے کھڑے ہوجاتے تھے۔ چیلنج کرتے تھے، آپ پہلے آئیں، آپ پہلے آئیں اور یوں ہم ایک دوسرے کےپوائنٹس کے جواب دیا کرتے تھے۔ میرے ساتھ کے آخری آدمی معراج محمدخان تھے۔ یہ وہ شخص تھا جس نےمیرے اندر سوشلسٹ تحریک کو سمجھنے کی لو لگائی تھی۔ پھر اس سے ملاقات ڈاکٹر مبشر کے لان میں اس وقت ہوئی جب پیپلزپارٹی کی بنیاد رکھی جارہی تھی۔ بعد میں بھٹو صاحب کے ناراض ہونے کبھی ایک سے کبھی دوسرے سے فسانے آتے رہے۔ انہوں نے جے اے رحیم اور معراج محمدخان کو جیل میںڈالا، خیر وہ زمانے گزر گئے جب کسی دانشور کی رحلت ہوتی تو کراچی میں معراج محمدخان طبیعت کی خرابی کے باوجود موجود ہوتے تھے۔ مجھے دونوں بھائیوں یعنی منہاج برنا اور معراج محمدخان سے بہت محبت اور بہت کچھ سیکھنے کو ملا اور اب جی چاہتا ہے کہ کمزور فیصلہ کرنے والوں میں شامل ہونے کے باوجود، پیپلزپارٹی میں استقامت کے ساتھ رہنے کی ہمت کو سلام کیا جائے کہ ہم نے پارٹی میں اتنے موقع پرستوں کو آتے اور جاتے اور خاندان کی پارٹی بناتے ہوئے عوام کی پارٹی کا ستیاناس ہوتے دیکھا ہے کہ بغیر پڑھےاور معلوم کئے پیارا سا نوجوان بلاول، ان سارے طالع آزمائوں کا کچا چٹھا کہاں سمجھ سکے گا۔ میں جس شخص کی بات کرنے والی تھی وہ قائم علی شاہ ہیں کہ بڑھاپے میں بھی سند تعلق لیکر رخصت ہورہے ہیں۔
مجھے یہ سب کچھ کیوںیاد آیا۔ میں نے ابھی عصمت چغتائی کے تحریر کردہ خاکوں کو جنہیں بڑی محبت اور محنت سے عقیل عباس جعفری نے مرتب کیا ہے، کمال محنت ہے کہ ہندوستان، پاکستان کے کسی بھی علاقے میںان کا مضمون چاہے اپنے بارے میں ہو کہ منٹویا ثریا یا مینا کماری کے بارے میں اس دلسوزی کے ساتھ لکھا ہے کہ پڑھتے ہوئے اس عبارت پر آنسو ٹپکنے لگتے ہیں۔ جب وہ پاکستانی ادیبوں کےبارے میںلکھتی ہیں تو کہتی ہیں ’’آج کل پاکستان کے رسالے پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ عجیب قسم کی کمبل میں لپٹی ہوئی جوتم پیزار چل رہی ہے جبکہ ہندوستان میں اردو کا کوئی ادیب، دوسرے کیلئے خطرہ نہیں، سنتےہیں ہندی کے ادیبوں میں بڑے زورکی چلتی ہے۔
عصمت آپا کو یاد نہیں رہا کہ وارث اور باقر مہدی کی کیسی جوتم پیزار ہوتی تھی۔شاعروں میں بھی خلیل الرحمٰن اعظمی اور مجاز کی وہ لڑائی ہوتی تھی کہ بیان میں نہیں لی جاسکتی۔ عصمت آپا نے اپنے زمانے میں سارے بڑے فنکاروں، ادیبوں اور اسٹوڈیوز کو دیکھا۔ مجھے یاد ہے کہ شاہد صاحب کا قد چھوٹا تھا اور عصمت آپا دراز قد تھیں، جب شاہد صاحب کے ساتھ چلتی تھیں تو ایڑی والا جوتا نہیں پہنتی تھیں، ویسےبھی شروع میں جس نے لحاف اور تل جیسی تخلیقات پیش کی ہوں، وہ کسی سے ڈرنے والی خاتون نہیں تھیں۔ ایک بار پطرس نے عصمت آپا کو کہا ’’آپ درمیانے درجے کی عکاسی تو کرلیتی ہیں مگر ڈرائنگ روم جاکر وہاں چوکڑی بھول جاتی ہیں‘‘۔ عصمت آپا نے لکھا کہ شکر ہے کہ میری پھوہڑ ماں اور کثیر الاولاد باپ کو ڈرائنگ روم سجانے کی فرصت ملی اور اب تو درمیانہ طبقہ بھی پھسل پھسل کر مزدور کی آغوش میں گررہا ہے۔
اتنا پڑھ کر میں رک گئی۔پاکستان میں 8کروڑ لوگ خط غربت سے نیچے ہیں۔ معراج محمدخان اسی کا رونا روتے ہوئے بار بار بھٹو صاحب سے کہا کرتے تھے کہ ’’ان وڈیروں، سرداروں سے آپ کب نجات حاصل کریں گے اور بھٹو صاحب تسلی دینے کو کہا کرتے تھے کہ اندر سے تو میں بھی کمیونسٹ ہوں، مجھے ذرا ان وڈیروں کو قابو میں کرنے دو‘‘۔مجھے معراج محمدخان اور عصمت آپا یکے بعد دیگرے کیوں یاد آرہےہیں۔ آج جب لوگ طعنہ دیتے ہوئے مجھ سے پوچھتے ہیں کہ سوویت یونین ٹوٹ گیا، آپ کس سوچ میں ٹھہری ہوئی ہیں، میںانہیں مزدوروں کے بازو کاٹنے، لڑکیوں کو زندہ جلادینے اور بچوں کے ساتھ زیادتی کرنے والوں کے المیے کو سناکر جواب دیتے ہوئے کہتی ہوں کہ نہ بھٹو صاحب قدامت پرستوں سے ڈرتے اور نہ کوثر نیازی جیسوںکی نصیحت پر عمل کرتے تو ہم معراج محمدخان کی اور ڈاکٹر مبشر حسن کے فلسفے کی تعبیر دیکھتے۔
ہماری گرو اور لکھنے میں ہم سب کی گروعصمت آپا رہی اور اب تک ہیں، بلکہ جب میں اپنی اماں کے ڈولی میں بیٹھنےاور اس میں بھی پتھر رکھے جانے کی وضاحت کرتی ہوں تو آج کے نوجوانوں کے منہ اس لئے کھلے رہ جاتے ہیں کہ وہ سب نئے فیشن تو کرلیتے ہیں مگر عصمت آپا کےاس فقرے کا مطلب نہیں سمجھ پاتے کہ گھر کی مالک ہوں،گھر میرا مالک نہیں۔ انہوں نے میرا جی ہو کہ سجاد ظہیر، مجاز کہ خواجہ احمدعباس، ثریا دلیپ کمار یا عینی آپا، ان کے گھروںمیں جھانکنے کے باوجود، ان کے وجود پر کچھ نہیں لکھا۔ ہاں اپنے اوپر لکھتے ہوئے وہ خود کہتی ہیں، ’’ہمارے اوپر تو نہ لاڈ ہوئے، نہ نخرے، نہ کبھی تعویذ نہ نظر اتاری گئی۔ شاباش عقیل عباس جعفری تم صرف عصمت چغتائی کی تحریریں ہمارےسامنے نہیں لائے، تم نے ہم سب متوسط درجے کے لوگوں کو بھی عصمت آپا کی زبان میں سب کچھ کہلوادیا ہے۔ معراج محمد خان بھی یہی کہتے تھے، دونوں میرے گرو رہے۔


.
تازہ ترین